Ayats Found (15)
Surah 7 : Ayat 75
قَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِۦ لِلَّذِينَ ٱسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ ءَامَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَـٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِۦۚ قَالُوٓاْ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلَ بِهِۦ مُؤْمِنُونَ
اُس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے کہا "کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالحؑ اپنے رب کا پیغمبر ہے؟" انہوں نے جواب دیا "بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اُسے ہم مانتے ہیں"
Surah 7 : Ayat 76
قَالَ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوٓاْ إِنَّا بِٱلَّذِىٓ ءَامَنتُم بِهِۦ كَـٰفِرُونَ
اُن برائی کے مدعیوں نے کہا جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں"
Surah 11 : Ayat 62
قَالُواْ يَـٰصَـٰلِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَـٰذَآۖ أَتَنْهَـٰنَآ أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِى شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍ
انہوں نے کہا 1"اے صالحؑ، اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ 2تو جس طریقے کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے3"
3 | یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑگئےتھے، مگر ہی ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا۔ یہ دعوتِ حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینانِ قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بے کلی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بے کلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید ، اثبات حق کے لے اس کے پرزور اور دل لگتے دلائل ، پھر اس کے بلند اخلاق، اس کا عزم ، اس کا حلم ، اس کی شرافت نفس، اس کا نہایت کھَرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی و ہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے ، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آجانے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں |
2 | یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مسحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے ۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرزِ استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ حضرت صالح نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عباد ت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ داد ا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے س جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے یلے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جارہی ہے |
1 | یعنی تمہاری ہوشمندی ، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گےء ۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤگے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے ۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپؐ کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلا ف آپؐ نے توحید وآخرت اورمکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپؐ سے نہ صرف مایوس ، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا |
Surah 15 : Ayat 80
وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَـٰبُ ٱلْحِجْرِ ٱلْمُرْسَلِينَ
حجر1 کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں
1 | یہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العُلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ”یہاں سُرخ رنگ کے پہاڑوں میں قومِ ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ اُن کے نقش و نگار اِس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷) |
Surah 15 : Ayat 81
وَءَاتَيْنَـٰهُمْ ءَايَـٰتِنَا فَكَانُواْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ
ہم نے اپنی آیات اُن کے پاس بھیجیں، اپنی نشانیاں اُن کو دکھائیں، مگر وہ سب کو نظر انداز ہی کرتے رہے
Surah 23 : Ayat 33
وَقَالَ ٱلْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِلِقَآءِ ٱلْأَخِرَةِ وَأَتْرَفْنَـٰهُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا مَا هَـٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ
اُس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا1، وہ کہنے لگے "یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے
1 | یہ خصوصیات لائق غور ہیں پیغمبر کی مخالفت کے لیے اٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قم کی سرداری حاصل تھی۔ ان سے کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے ، اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا، اور اسی لیے وہ دنیا کی اس زندگی پر فریفتہ تھے اور ’’ مادی فلاح و بہبود‘‘ سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ ، وہ نظام اخلاق ، اور وہ طرز زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دہراتی رہی ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ انہی تین خصوصیات کے حامل لوگ ہوئے ہیں۔اور یہی اس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مکے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے |
Surah 23 : Ayat 40
قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَـٰدِمِينَ
جواب میں ارشاد ہوا "قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے"
Surah 26 : Ayat 153
قَالُوٓاْ إِنَّمَآ أَنتَ مِنَ ٱلْمُسَحَّرِينَ
انہوں نے جواب دیا 1"تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے
1 | ’’سحر زدہ‘‘ یعنی دیوانہ و مجنون، جس کی عقل ماری گئی ہو۔ قدیم تصورات کے مطابق پاگل پن یا تو کسی جِن کے اثر سے لاحق ہوتا تھا یا جادو کے اثر سے۔ اس لیے وہ جسے پاگل کہنا چاہتے تھے اس کو یا تو ’’مجنون‘‘ کہتے تھے یا مسحور اور مسحّر |
Surah 26 : Ayat 154
مَآ أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا فَأْتِ بِـَٔـايَةٍ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے لا کوئی نشانی اگر تو سچّا ہے1"
1 | یعنی بظاہر تو ہم میں اور تجھ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ ہم تجھے خدا کا فرستادہ مان لیں۔ لیکن اگر تو اپنے مامور من اللہ اور مرسل من جانت اللہ ہونے کے دعوے میں سچا ہے تو کوئی ایسا محسوس معجزہ پیش کر جس سے ہمیں یقین آ جائے کہ واقعی کائنات کے خالق اور زمین و آسمان کے مالک نے تجھ کو ہمارے پاس بھیجا ہے |
Surah 27 : Ayat 47
قَالُواْ ٱطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَۚ قَالَ طَـٰٓئِرُكُمْ عِندَ ٱللَّهِۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
انہوں نے کہا "ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بد شگونی کا نشان پایا ہے"1 صالحؑ نے جواب دیا "“تمہارے نیک و بد شگون کا سر رشتہ تو اللہ کے پاس ہے اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے"2
2 | یعنی بات وہ نہیں ہے جوتم نے سمجھ رکھی ہے۔ اصل معاملہ جسے اب تک تم نہیں سمجھنے ہو یہ ہے کہ میرے آنے سے تمہارا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ جب تک میں نہ آیا تھا، تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چلے جارہے تھے حق اورباطل کا کو کھلا امتیاز سامنے نہ تھا۔ کھرے اورکھوٹے کہ پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا۔ بدتر سے بدتر لوگ اورنچے ہورہے تھے، اوراچھی سے اچھی صلاحیتوں کے لوگ خاک میںملے جارہے تھے۔ مگر اب ایک کسوٹی آگئی ہے جس پر تم سب جانچے اورپرکھے جاؤ گے۔ اب بیچ میدان میں ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے جو ہرایک کواس کے وزن کے لحاظ سے توملے۔ اب حق اور باطل آمنے سامنے موجود ہیں۔ جو حق کوقبول کرے گاوہ بھاری اترے گا خواہ آج تک اس کی کوڑی بھر بھی قیمت نہ رہی ہو۔اور جو باطل پرجمے گا اس کا وزن رتی بھر نہ رہے گا چاہے وہ آج تک امیر الامراء ہی بنارہا ہو۔ اب فیصلہ اس پرنہیں ہوگا کہ کون کس خانداب کا ہے اورکس کے زرائع ووسائل کتنے ہیں، اورکون کتنا زور رکھتا ہے، بلکہ اس پر ہوگا کہ کون سیدھی طرح صداقت کو قبول کرتا ہے اورکون جھوٹ کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کردیتا ہے۔ |
1 | ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے، جب سے تم نے اورتمہارے ساتھیوں نے دینِ آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل نازل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر اُن مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں۔ چنانچہ سورہ یٰسین میں ایک قوم کازکر آتا ہے کہ اس نے اپنے انبیاء سے کہاانّا تطیّرنا بکم ’’ ہم نے تم کو منحوس پایا ہے‘‘ (آیت ۱۸)۔ یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسٰیؑ کے متعلق کہتی تھی: فاِذِاجَآءَتْھُم الْحَسَنَۃُ قَالُوآلنَاھٰذِھ واِنْ تُصِبھُمْ سَیِئۃٌ یَّطَّیَّرُوْ ابِمُوسٰی و من مّعھُ۔ ’’ جب ان پرکوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیے یہی اورجب کوئی مصیبت آجاتی تو موسٰیؑ اوران کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے‘‘(الاعراف، آیت ۱۳۰) قریب قریب ایسی باتیں مکہ میں نبی ﷺ کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں۔ دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پرمجتمع تھی۔ تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اوربیٹا باپ سے کٹ گیا۔ اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا۔ یہی وہ الزام تھا جسے محمد ﷺ کے مخالفین آپ کے خلاف باربار پیش کرتے تھے۔ آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سرداران قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ’’ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اورتمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اورساری قوم کو بے وقوف قراردیا ہے ‘‘ (ابن ہشام جلد اول،ص ۲۸۵)۔ حج کے موقعہ پر جب کفار مکہ کواندیشہ ہُوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد ﷺ کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں تو انہوں نے باہم مشورہ کرنے کے بعدیہی طے کیا کہ قبائک عرب سے کہا جائے:’’ یہ شخص جادوگر ہے، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے، ہیوی شوہر سے، اورآدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے ‘‘(ابن ہشام جلد اول،ص ۲۸۹) |