Ayats Found (2)
Surah 41 : Ayat 15
فَأَمَّا عَادٌ فَٱسْتَكْبَرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ وَقَالُواْ مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًۖ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ ٱلَّذِى خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًۖ وَكَانُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا يَجْحَدُونَ
عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے 1"کون ہے ہم سے زیادہ زور آور" اُن کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے
1 | منحوس دنوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اورعذاب اس لیئے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آگئے تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور خود اُن ہی دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو دور و نزدیک کی ساری قوموں پر آجاتا۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ اُن پر قوم پر خدا کاعذاب نازل ہُوا اس بنا پر وہ دن کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعدو نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ طوفانی ہوا کے لیے ریح صرصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے بعض کہتے ہیں ک اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مردا ایسی ہوا ہے جس کے چلنے شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ آیت۷)۔ جس چیز سے بھی ہوا گزر گئی اس کو بوسیدہ کرکے رکھ دیا (الذاریات ۴۲۱) جس وقت یہ ہو آرہی تھہ اس وقت دعا کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے بارش ہوگی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑجائے گا مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کرکے رکھ دیا (الاحقاف ۲۴۱۔۲۵) |
Surah 41 : Ayat 16
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِىٓ أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَلَعَذَابُ ٱلْأَخِرَةِ أَخْزَىٰۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ
آخرکار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں2، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا
2 | یہ ذلت ورسوائی کا عذاب ان کے کبر وغرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا، اور اسن کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے۔ (عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعرف حواشی ۵۱ تا ۵۳۱ ہود حواشی ۵۴۔ جلد سوم، المومنون حواشی ۳۴ تا ۳۷ الشعراء حواشی ۸۸ تا ۹۴ العنکبوت حاشیہ ۶۵ |
1 | ’’ منحوس دنوں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجاۓ خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آ گۓ تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجاۓ خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آ جاتا۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ طوفانی ہوا کے لیے’’ریح صر صر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں ۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ آیت ۷) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا (الزاریات، ۴۲۱ ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جاۓ گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا (الا حقاف، 24۔25) |