Ayats Found (6)
Surah 16 : Ayat 29
فَٱدْخُلُوٓاْ أَبْوَٲبَ جَهَنَّمَ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى ٱلْمُتَكَبِّرِينَ
اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے1" پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کے لیے
1 | یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت، جس میں قبضِ روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے، قرآن مجید کی اُن متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پرعذاب و ثواب ِقبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازًا عالمِ برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرینِ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں۔ اور فورًا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹ بتاتے ہیں اورجہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ اُن کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ اسی سے ملتا جُلتا مضمون سورۂ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے۔جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانو ں سے قبضِ روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۂ مومن آیت نمبر ۴۵ – ۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالٰی فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ”ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کی شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا، سب کچھ اُس کیفیت سے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہو گی۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال، اور پھر اُس کا جنت کی بشارت سننا، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا، یہ سب بھی اُس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حسنِ کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدہ ٔملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ خواب ایک لختِ نفخ صورِ دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدانِ حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْ قَدِنَا (ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا؟) مگر اہلِ ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ھِذَا مَا وَعَدَ الرَّ حْمٰنُ وَصَدَ قَ الْمُرْسَلُوْنَ (یہ وہی چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچّا تھا)۔ مجرمین کا فوری احساس اُس وقت یہ ہو گا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں (جہاں بستر موت پر اُنہوں نے دنیا میں جان دی تھی) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مگر اہلِ ایمان پورے ثباتِ قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہ ِ اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اِس چیز کو جانتے نہ تھے)۔ |
Surah 39 : Ayat 72
قِيلَ ٱدْخُلُوٓاْ أَبْوَٲبَ جَهَنَّمَ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۖ فَبِئْسَ مَثْوَى ٱلْمُتَكَبِّرِينَ
کہا جائے گا، داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں، یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ہی برا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لیے
Surah 40 : Ayat 60
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
تمہارا رب 1کہتا ہے 2"مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے3"
3 | اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضاۓ بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انْ الدعاء ھوا لعبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ ..... یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرائی(احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ، بن ابی حتم، ابن جریر)۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ’’دعا مغز عبادت ہے‘‘ (ترمذی)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی) اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوۓ اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً، اللہ تعالٰی بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالٰی کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گۓ ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالٰی خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ یہ وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہر حال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجاۓ خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جاۓ یا نہ کی جاۓ جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یرو القضاءَ الاالدعاء(ترمذی)۔’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔‘‘ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بد ل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ما من احدید عو بدعاءٍ الّا اٰتا ہ اللہ ماسأں اوکف عنہ من السرء مثلہ مالم یدع اباثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی)۔’’آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یاتو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ مامن مسلم یدعوبدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ، و اما ان یَدَّ خِر ھا لہٗ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من اسوء مثلھا (مسند احمد ) ’’ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالٰی اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا دعا احد کم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم مسئلتہٗ (بخاری)۔’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حجت پوری کر‘‘۔ دوسرے روایت حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعواللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی)’’اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرماۓ گا۔‘‘ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ با ثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ ما الا ستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَیُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک وید ع الد ع الدعاْ(مسلم)۔‘‘ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جاۓ اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔‘‘ دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں : حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ) ’’اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے‘‘۔ حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : سلوااللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأ ل (ترمذی)۔ ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جاۓ۔’’حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ان الدعاء ینطع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباداللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد) ’’دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو‘‘۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جاۓ تو خدا سے دعا کرے۔‘‘ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، اور تدبیر سے پہلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔ |
2 | یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ سے مانگو۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں : اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار (Supernatural powers)کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے سکی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا نا گزیر ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی بکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالٰی ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا۔ دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جاۓ۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہر حال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصّہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالٰی ہی کی ہے اور وہی کُلی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کار روائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رونما نہ ہو گا۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جاۓ مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جاۓ کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آۓ گی۔ یہ حرکت اول تو بجاۓ خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجود گی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جاۓ کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔ ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے۔ |
1 | آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان دوسرے بنائے نزاع تھی |
Surah 40 : Ayat 76
ٱدْخُلُوٓاْ أَبْوَٲبَ جَهَنَّمَ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۖ فَبِئْسَ مَثْوَى ٱلْمُتَكَبِّرِينَ
اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ تم کو وہیں رہنا ہے، بہت ہی برا ٹھکانا ہے متکبرین کا"
Surah 45 : Ayat 31
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَفَلَمْ تَكُنْ ءَايَـٰتِى تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا اُن سے کہا جائے گا 1"کیا میری آیات تم کو نہیں سنائی جاتی تھیں؟ مگر تم نے تکبر کیا اور مجرم بن کر رہے
1 | یعنی اپنے گھمنڈ میں تم نے یہ سمجھا کہ اللہ کی آیات کو مان کر مطیع فرمان بن کر مطیع فرمان بن جانا تمہاری شان سے فرو تر ہے، اور تمہارا مقام بندگی کے مقام سے بہت اونچا ہے |
Surah 45 : Ayat 35
ذَٲلِكُم بِأَنَّكُمُ ٱتَّخَذْتُمْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَاۚ فَٱلْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو1"
1 | یہ آخری فقرہ اس انداز میں ہے جیسے کوئی آقا اپنے کچھ خادموں کو ڈانٹنے کے بعد دوسروں سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اچھا، اب ان نالائقوں کی یہ سزا ہے |