Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 178
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِصَاصُ فِى ٱلْقَتْلَىۖ ٱلْحُرُّ بِٱلْحُرِّ وَٱلْعَبْدُ بِٱلْعَبْدِ وَٱلْأُنثَىٰ بِٱلْأُنثَىٰۚ فَمَنْ عُفِىَ لَهُۥ مِنْ أَخِيهِ شَىْءٌ فَٱتِّبَاعُۢ بِٱلْمَعْرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَـٰنٍۗ ذَٲلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌۗ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٲلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے 1آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے2 ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو3، تو معروف طریقے4 کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے5، اس کے لیے دردناک سزا ہے
5 | (مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصُول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے |
4 | ”مَعْرُوْف“ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریقِ کار ہے ، جس سے بالعمُوم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص ، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اُٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریقِ عمل ہے۔ رواجِ عام( Common Law ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ”عرف“ اور ”معروف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے ، جن کو بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو |
3 | ”بھائی“ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دُوسرے شخص کے درمیان باپ ماری کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصّے کو پی جا ؤ ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایانِ شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا ، معافی کی صُورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا |
2 | جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خُون اُس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اُسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزّز آدمی اگر دُوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزّز آدمی مارا جائے یا اُس کے کئی آدمی اُن کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول اُن کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزّت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے ، اُن کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دُنیا کو سُنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سُنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اُڑائے گئے۔ ایک”مہذّب“ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دُوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سدِ باب کا حکم اللہ تعالٰی نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون |
1 | قِصَاص، یعنی خُون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اُس نے دُوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اُسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اُس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اُس کے ساتھ کیا جائے |
Surah 2 : Ayat 195
وَأَنفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِۛ وَأَحْسِنُوٓاْۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو1 احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے2
2 | احسان کا لفظ حُسن سے نِکلا ہے، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو، اُسے بس کردے۔ اور دُوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے، اپنی پُوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے۔ اور دُوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگا ؤ درکار ہوتا ہے |
1 | اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مُراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گےا ور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے، تو یہ تمہارے لیے دُنیا میں بھی موجب ِ ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں تم کفّار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بار پرس ہو گی |
Surah 2 : Ayat 229
ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمْسَاكُۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحُۢ بِإِحْسَـٰنٍۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْــًٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِۦۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَاۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے1 اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو2 البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے3 یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں
3 | شریعت کی اصطلاح میں اسے” خُلع“ کہتے ہیں، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہو گا۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے ، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اُس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اُس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے ، تجویز کرے ، اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا۔ بالعمُوم فقہانے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے۔ خُلع کی صُورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ بائنہ ہے۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خرادا ہے، اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رُجوع کر سکے۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دُوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے۔ جمہور کے نزدیک خُلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہے ۔ مگر ابوداوٗد ، ترمذی اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں متعدّد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدّت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا (ابنِ کثیر، جلد اوّل، ص ۲۷۶) |
2 | یعنی مَہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ ، جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اُصُولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دُوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتّے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصُو صیّت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رُخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے ، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کرے۔ جیسا کہ آگے آیت ۲۴۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے |
1 | اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی، جو عربِ جاہلیّت میں رائج تھی ، اِصلاح کی گئی ہے۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حدّو حساب طلاق دینے کا مجاز تھا۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اُس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اَور سے نکاح ہی کر سکے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے۔ اس آیت کی رُوسے ایک مرد ایک رشتہ ء نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاقِ رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رُجوع کر چکا ہو، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ عورت کو حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو، جبکہ عورت ایّامِ ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایّام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے، تو دُوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دیدے، ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے۔ اِس صُورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رُجوع کر لے، اور عدّت گزر بھی جائے ، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اِس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے۔ رہی یہ صُورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جُہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر ؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا، آپ اس کو دُرّے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ، ائمہء اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے |
Surah 16 : Ayat 90
۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ وَإِيتَآىِٕ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ وَٱلْبَغْىِۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے 1اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے 2وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو
2 | اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالٰی تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اوراجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں: پہلی چیز فَحْشَآع ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلًا بخل، زنا، برہنگی وعُریانی، عملِ قومِ لوط، محرّمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان بُرے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلًا جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظرعام پرآنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پرعورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز وادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔ دوسری چیز مُنکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں، اور عام شرائع الہٰیہ نے جس سے منع کیا ہے۔ تیسری چیز بَغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔ |
1 | اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔: پہلی چیزعدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسُب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اُردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ”انصاف“سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصوّر پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیا د پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات، اوراعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان مواوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالٰی نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ دوسری چیزاحسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویّہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجانا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھرا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھُرّے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہوگی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اوراخلاص وخیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشونما دینے والی قدریں ہیں۔ تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے،صلۂ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت ِ الہٰی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اِس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اوراسی کا خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہرخاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے، پھر دوسروں پران کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اور ہرخاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقداراس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں، پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں، اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پراس کی پرورش لازم کردیتا ۔۔۔۔۔۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ(Unit) اِس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔ |
Surah 17 : Ayat 53
وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُواْ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ كَانَ لِلْإِنسَـٰنِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اے محمدؐ، میرے بندوں1 سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو 2دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے3
3 | یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تاکہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔ |
2 | یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف ِحق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔ |
Surah 28 : Ayat 77
وَٱبْتَغِ فِيمَآ ءَاتَـٰكَ ٱللَّهُ ٱلدَّارَ ٱلْأَخِرَةَۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ ٱلدُّنْيَاۖ وَأَحْسِن كَمَآ أَحْسَنَ ٱللَّهُ إِلَيْكَۖ وَلَا تَبْغِ ٱلْفَسَادَ فِى ٱلْأَرْضِۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا"
Surah 29 : Ayat 46
۞ وَلَا تُجَـٰدِلُوٓاْ أَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ إِلَّا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْۖ وَقُولُوٓاْ ءَامَنَّا بِٱلَّذِىٓ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَٲحِدٌ وَنَحْنُ لَهُۥ مُسْلِمُونَ
اور اہل کتاب1 سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے2، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں3، اور اُن سے کہو کہ 4"ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں"
4 | ان فقروں میں اللہ تعالٰی نے خود اُس عمدہ طریق بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہوگی اُس کی گمراہی کو نقطہ بحث بنا کر آغاز نہ کرو بلکہ بات اس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونسے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں۔ یعنی آغاز کلام نکاتَِ اختلاف سے نہیں بلکہ اتفاق سے ہونا چاہیے پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کرکے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور اس کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل کتاب مشرکین عرب کی طرح وحی اور رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح ان سب حققیقتوں کو مانتے تھے، ان بنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑی چیز بنیاد اختلاف ہو سکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کی اُنہیں دعوت دیتے اور اس کے نہ ماننے پر انہیٓں کافر قرار دیتے یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا، وہ تمام اُن کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہل کتاب کے پاس موجود تھیں اور پھر اُس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمدﷺ پر بازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بتانا اہل کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں، اس کی طرف سے جو احکام وہدیات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر تسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں، ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں ہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اُسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں، قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصاً اہل کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہوالبقرہ آیات ۱۳۶۔۴ ۱۷۷۔۲۸۵۔ آل عمران آیت ۸۴۔ النساء ۱۳۶۔۱۵۰ تا ۱۶۲۔۱۵۲ تا ۱۶۴۔ الشوی ۱۳۔ |
3 | یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے، اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔ |
2 | یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے، مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخالف کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتاردے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا اعلاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہو جائے، یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے، مثلاً:
اُدعُ اِلٰی سَبِیلِ رَبِکَ بِا لحِکمَتَہ دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو
وَالمَو عِظَتِہ الحَسَنَتِہ وَجَادِ لہُم بِالَتِی ھِیَ اَحسَنُ۔ (الخل۔ آیت ۱۲۵)۔ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
وَلَا تَستَوِی الحَسَنَتُہ وَ لَا السَیِتُہ اَدفَع بِا لِتِی ھِیَ اَحسَنُ فَاِ ذَا الَذِی بَینَکَ وَ بَیُنَھ عَدَاوَۃٌ کَاَ نَھ وَلِیٌ حَمِیمٌ ْ (حم السجدہ۔ آیت ۳۴)۔
بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گم جوش دوست ہے۔
اِدفَع بِاَ لَتِی ھِیَ اَحسَنُ التَبِیِتَہ نَحنُ اَعلَمُ بِمَا یَصِفُونَ ْ (المومنون۔ آیت ۹۶)۔
تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں۔
خُذِاعَفوَوَاُمُ بِاَ لعُرفِ وَاَعِرض عَِن الجَا ھِلِنَ ْ وَاِ مَا یَنذَ غَنَکَ مِنَ الشَیطِٰن نَذغٌ فَا ستَعِذ بِاَ للہِ۔ (الاعراف۔ آیات ۱۹۹۔۲۰۰)۔
درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر ( ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔
|
1 | واضح رہے کہ آگے چل کر اسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اُس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جا سکتے تھے۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں۔ |
Surah 4 : Ayat 85
مَّن يَشْفَعْ شَفَـٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُۥ نَصِيبٌ مِّنْهَاۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَـٰعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُۥ كِفْلٌ مِّنْهَاۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا1، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے
1 | یعنی یہ اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا نصیب ہے کہ کوئی خدا کی راہ میں کوشش کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارے اور اس کا اجر پائے ، اور کوئی خدا کے بندوں کو غلط فہمیوں میں ڈالنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد سے باز رکھنے میں اپنی قوت صرف کرے ، اور اس کی سزا کا مستحق بنے |