Ayats Found (13)
Surah 7 : Ayat 74
وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ ٱلْجِبَالَ بُيُوتًاۖ فَٱذْكُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو1 پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو2"
2 | یعنی عاد کے انجام سے سبق لو۔جس خدا کی قدرت نے اُس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جا نشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲) |
1 | ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جو ں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نےانجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی |
Surah 15 : Ayat 82
وَكَانُواْ يَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا ءَامِنِينَ
وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے
Surah 26 : Ayat 149
وَتَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا فَـٰرِهِينَ
تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں عمارتیں بناتے ہو1
1 | جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَا بُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ، ’’ وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْ نَ مِنْ سُھُوْ لِھَا قُصُوْراً۔ (الاعراف۔آیت 74)۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے۔ دوری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء (جسے عہد نبوی وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے۔ آبادی بارے نام ہے۔ روئیدگی بہت کم ہے۔ چند کنوئیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے (اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے )۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوۓ تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آۓ جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گۓ ہیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے (ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں )۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوۓ تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30۔40۔ میل اندر تک ملتے چلے گۓ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل فورا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر، اور اردن کی ریاست میں پٹرا( Petra) کے مقام پر بھی ملیں۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے (ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں )۔ انگریز مستشرق ڈاٹی (Daughty) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ، نبطیوں کی نائی ہوئی عمارات ہیں۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا، اور پھر ایلورہ میں (جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا |
Surah 89 : Ayat 9
وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُواْ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ
اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں1؟
1 | وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جہاں اس قوم نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنائی تھیں غالباً تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے چٹانوں کے اندر اس کی عمارتیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حواشی 57۔59۔ الحجر، حاشیہ 45۔ جلد سوم، الشعراء حواشی 95۔99مع تصاویر) |
Surah 7 : Ayat 73
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْۖ هَـٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةًۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِىٓ أَرْضِ ٱللَّهِۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ثمود کی طرف1 ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک درد ناک عذاب تمہیں آ لے گا
2 | ظاہرعبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے فقرے میں اللہ کی جس کھلی دلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی اُونٹنی ہے جسے اس دوسرے فقرے میں”نشانی“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ شعراء آیات۵۴ تا ١۵۸ میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا حضرت صالح سے مطالبہ کیا تھا جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر کھلی دلیل ہو، اور اسی جواب میں حضرت صالح نے اونٹنی کو پیش کیا تھا۔ اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اُونٹنی کو ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا اور یہ اسی نوعیت کے معجزات میں سے تھا جو بعض انبیاء نے اپنی نبوت کے ثبوت میں منکرین کے مطالبہ پر پیش کیے ہیں۔ نیز یہ بات بھی اس اونٹنی کی معجزانہ پیدائش پر دلیل ہے کہ حضرت صالح نے اسے پیش کرکے منکرین کو دھمکی دی کہ بس اب اس اونٹنی کی جان کے ساتھ تمہاری زندگی معلق ہے۔ یہ آزادانہ تمہاری زمینوں میں چرتی پھرے گی۔ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن پوری قوم کے جانور پیں گے۔ اور اگر تم نے اسے پاتھ لگایا تو یکایک تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ا س شان کے ساتھ وہی چیز پیش کی جا سکتی تھی جس کا غیر معمولی ہونا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ پھر یہ بات کہ ایک کافی مدّت تک یہ لوگ اس کے آزادانہ چرنے پھرنے کو اور اس بات کو کہ اک دن تنہا وہ پانی پیے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پیں، بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے اور آخر بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد انہوں نے اسے قتل کیا، درآں حالے کہ حضرت صالح کے پاس کوئی طاقت نہ تھی جس کا انہیں کوئی خوف ہوتا، اِس حقیقت پر مزید دلیل ہے کہ وہ لوگ اس اُونٹنی سے خوف زدہ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی زور ہے جس کے بل پر وہ ہمارے درمیان دندناتی پھرتی ہے۔ مگر قرآن اس امر کی کوئی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اُونٹنی کیسی تھی اور کس طرح وجود میں آئی۔ کسی حدیث صحیح میں بھی اس کے معجزے کے طور پرپیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے اُن روایات کو تسلیم کرنا کچھ ضروری نہیں جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں۔ لیکن یہ بات کہ وہ کسی نہ کسی طور پر معجزے کی حیثیت رکھتی تھی، قرآن سے ثابت ہے |
1 | یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد ِعام تھے۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔ ا س قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدنیہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنا یا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھا ئے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب ِ بصیرت انسان کو حاصل کر نا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہےجس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا ، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی در ے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے اُن کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے |
Surah 7 : Ayat 74
وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ ٱلْجِبَالَ بُيُوتًاۖ فَٱذْكُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو1 پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو2"
2 | یعنی عاد کے انجام سے سبق لو۔جس خدا کی قدرت نے اُس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جا نشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲) |
1 | ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جو ں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نےانجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی |
Surah 11 : Ayat 61
۞ وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓاْ إِلَيْهِۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا1 اُس نے کہا 2"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُ س کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو 3اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے4"
4 | یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور اُن اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں ، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانہ ٔ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈ ا جائے اور اُن مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایم جم غفیر کھڑا کر دیا ہے اور س کے ساتھ مہنت گری(Priesthood ) کا وہ نظام پید کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔ حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ وہ مجیب ہے ۔ یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے ، اور یہ بھی غلط ہے ہے کہ تم براہِ رست اس کی پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اسکے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی ا س کو پا سکتا ہے ، ا س سے سرگوشی کر سکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کرسکتا ہے۔ اور پھر وہ براہِ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطان ِ کائنات کا دربارِ عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ کا حاشیہ نمبر ۱۸۸) |
3 | یعنی اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو |
2 | یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کےسوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کر کے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادّوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا، اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا، تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو |
1 | سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں |
Surah 23 : Ayat 31
ثُمَّ أَنشَأْنَا مِنۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا ءَاخَرِينَ
ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دَور کی قوم اٹھائی1
1 | بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے ،کیونکہ آگے چل کر ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صیحہ کے عذاب سے تباہ کی گئی ، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود وہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا ، (ہود، 67۔ الحجر، 83۔ القمر، 31 )۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر در اصل قوم عاد کا ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے قوم نوح کے بعد یہی قوم اٹھائی گئی تھی، وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مِنْم بَعْدِقَوْمِ نُوْحٍ (اعراف۔ آیت 69)۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہ، کیونکہ ’’ قوم نوح کے بعد‘‘ کا اشارہ اسی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ رہا صَیْحَہ (چیخ ، آوازہ، شور، ہنگامہ عظیم) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اس آوازہ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کی موجب ہو، اسی طرح اس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت عام کے وقت بر پا ہوا کرتا ہے خواہ سبب ہلاکت کچھ ہی ہو |
Surah 23 : Ayat 32
فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ أَنِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا (جس نے انہیں دعوت دی) کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
Surah 26 : Ayat 141
كَذَّبَتْ ثَمُودُ ٱلْمُرْسَلِينَ
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 73 تا 79۔ ہود، 61۔ 68۔ الحجر، 80۔ 84۔ بنی اسرائیل 59۔ مزید تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : النمل، 45۔ 53۔الذاریات، 43۔ 45۔ القمر، 23۔ 31۔ الحاقہ، 4۔5۔ الفجر، 9۔ الشمس، 11۔ اس قوم کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جو تصریحات کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی، جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مَنْ؍ بَعْدِ عَادٍ (الاعراف آیت 74 ) مگر اس کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی، یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اوراجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے۔ دوسری طرف معاشرے میں شرک وبت پرستی کا زور تھا اورزمین ظلم و ستم سے لبریزہورہی تھی۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے۔ حضرت صالح کی دعوت حق نے اگر اپیل کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو کیا۔ اونچے طبقوں نے اسے ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ، ’’ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کو ہم نہیں مان سکتے |