Ayats Found (22)
Surah 7 : Ayat 65
۞ وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اور عاد1 کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا اس نے کہا "اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے؟"
1 | یہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زوعام تھے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی ۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قد یمہ کو عادیّات کہتے ہیں۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے اُفتادہ پڑی ہوئی ہو اُسے عادیُّ الا رض کہا جاتا ہے۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ عرب کے ماہرینِ انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بنی ذُہل بن شیَبان کے ایک صاحب آئے جو عاد کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور اُنہوں نے وہ قصے حضور کو سنائے جو اس قوم کے متعلق قدیم زمانوں سے ان کے علاقہ کے لوگوں میں نقل ہوتے چلے آرہے تھے۔ قرآن کی رو سے اس قوم کا اصل مسکن اَحقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن ور یمامہ کے درمیان الرَّبع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کےمغربی سوا حل اور عُمان و حضر موت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکّہ رواں کردیا تھا۔ تا ریخی حیثیت سے اس قوم کے آثار دنیا سے تقریباً نا پید ہو چکے ہیں، لیکن جنوبی عرب میں کہیں کہیں کچھ پرانے کھنڈر موجود ہیں جنہیں عاد کی طرف نسبت دی جاتی ہے حضرموت میں ایک مقام پر حضرت ہود علیہ السلام کی قبر بھی مشہور ہے۔١۸۳۷ ء میں ایک انگریز بحری افسر ( James R. Wellested )کو حِصنِ غُراب میں ایک پُرانا کتبہ ملا تھا جس میں حضرت ہود علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو شریعت ہود کے پیرو تھے۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو الا حقاف حاشیہ ۲۵) |
Surah 7 : Ayat 69
أَوَ عَجِبْتُمْ أَن جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْۚ وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِى ٱلْخَلْقِ بَصْۜطَةًۖ فَٱذْكُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمھیں خبردار کرے؟ بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اُس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنو مند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو1، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے"
1 | اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی نعمتوں کے بھی ہیں اور کرشمائے قدرت کے بھی اور صفات حمیدہ کے بھی ۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں اور اس کے احسانا ت کو بھی یاد رکھو اور یہ بھی فراموش نہ کرو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں چھین لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے |
Surah 7 : Ayat 70
قَالُوٓاْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ٱللَّهَ وَحْدَهُۥ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَاۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
انہوں نے جواب دیا 1"کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو سچا ہے"
1 | یہاں یہ بات پھر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ قوم بھی اللہ سے منکر یا نا واقف نہ تھی اور نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکا ر تھا۔ دراصل وہ حضرت ہود کی جس بات کو ماننے سے انکار کرتی تھی وہ صرف یہ تھی کہ اکیلے اللہ کی بندگی کی جائے، کسی دوسرے کی بندگی اس کے ساتھ شامل نہ کی جائے |
Surah 7 : Ayat 72
فَأَنجَيْنَـٰهُ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَاۖ وَمَا كَانُواْ مُؤْمِنِينَ
آخر کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہودؑ اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے1
1 | جڑ کاٹ دی، یعنی ان کا استیصال کر دیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے، اور موجود ہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہو گئے اور ان کی یاد گاریں تک دنیا سے مٹ گئیں۔ چنانچہ مورخین عرب انہیں عرب کی اُممِ بائدہ(معدوم اقوام)میں بے شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حِصنِ غُراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر کر چکے ہیں انہی کی یاد گاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں(جسے تقریباً ١۸ سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے)ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:۔ ”ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی، ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو بُرے خیالات سے پاک اور اہل شروفساد پر سخت تھے، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کر لیے جاتے تھے، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے۔“ یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے |
Surah 11 : Ayat 50
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا1 اُس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں
2 | یعنی وہ تمام دوسرے معبود جن کی تم بندگی و پرستش کر رہے ہو حقیقت میں کسی قسم کی بھی خدائی صفات اور طاقتیں نہیں رکھتے۔ بندگی و پرستش کا کوئی استحقاق اُن کو حاصل نہیں ہے ۔ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے اور بلاوجہ اُن سے حاجت روائی کی آس لگائے بیٹھے ہو |
1 | سورۂ اعراف رکوع ۵ کے حواشی پیشِ نظر رہیں |
Surah 11 : Ayat 60
وَأُتْبِعُواْ فِى هَـٰذِهِ ٱلدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ أَلَآ إِنَّ عَادًا كَفَرُواْ رَبَّهُمْۗ أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ
آخر کار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، سنو! دور پھینک دیے گئے عاد، ہودؑ کی قوم کے لوگ
Surah 25 : Ayat 38
وَعَادًا وَثَمُودَاْ وَأَصْحَـٰبَ ٱلرَّسِّ وَقُرُونَۢا بَيْنَ ذَٲلِكَ كَثِيرًا
اِسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس1 اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے
1 | اصحاب الرس کے متعلق تحقیق نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے ۔ مفسرین نے مختلف روایات بیان کی ہیں مگر ان میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے پیغمبر کو کنوئیں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا۔ رَس عربی زبان میں پرانے کنوئیں یا اندھے کو کہتے ہیں |
Surah 25 : Ayat 39
وَكُلاًّ ضَرَبْنَا لَهُ ٱلْأَمْثَـٰلَۖ وَكُلاًّ تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا
اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے (پہلے تباہ ہونے والوں کی) مثالیں دے دے کر سمجھایا اور آخرکار ہر ایک کو غارت کر دیا
Surah 26 : Ayat 123
كَذَّبَتْ عَادٌ ٱلْمُرْسَلِينَ
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 65 تا 72۔ ہود، 50 تا 60۔ مزید براں اس قصے کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی نگاہ میں رہیں : حٰم السجدہ آیات 13۔ 16۔ الاحقاف، 21۔ 26 الذاریات، 41۔ 45۔ القمر 18۔ 22۔ الحاقہ 4۔8۔ الفجر 6۔ 8 |
Surah 26 : Ayat 140
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی