Ayats Found (6)
Surah 4 : Ayat 166
لَّـٰكِنِ ٱللَّهُ يَشْهَدُ بِمَآ أَنزَلَ إِلَيْكَۖ أَنزَلَهُۥ بِعِلْمِهِۦۖ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ يَشْهَدُونَۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًا
(لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اُس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے، اور اِس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے
Surah 7 : Ayat 7
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍۖ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ
پھر ہم خود پور ے علم کے ساتھ سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے
Surah 7 : Ayat 52
وَلَقَدْ جِئْنَـٰهُم بِكِتَـٰبٍ فَصَّلْنَـٰهُ عَلَىٰ عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے1 اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے2
2 | مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتےہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اِس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت ، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اُن حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سےصحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے |
1 | یعنی اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں کونسا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں۔ پھر یہ تفصیلات بھی قیاس یا گمان یاد ہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص علم کی بنیا د پر ہیں |
Surah 11 : Ayat 14
فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَآ أُنزِلَ بِعِلْمِ ٱللَّهِ وَأَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کر تے ہو؟1"
1 | یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : (۱) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے ، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کے میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا دیہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے۔ (۲) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخلافت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی (اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ س فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خوا ہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے ، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبۂ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں۔ اس آیت سےضمنًا یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورۂ یونس سے پہلے کی ہے۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گای ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورۂ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ۔ (یونس ۔آیت ۳۸ حاشیہ ۴۶) |
Surah 21 : Ayat 51
۞ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَٲهِيمَ رُشْدَهُۥ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِۦ عَـٰلِمِينَ
اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے1
1 | ہوشمندی‘‘ ہم نے ’’ رشد‘‘ کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں ’’ صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا ‘‘۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ’’ رشد ‘‘ کا ترجمہ ’’ راست روی‘‘ بھی ہو سکتا ہے ، لیکن چونکہ رشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقل سلیم کے استعمال کا ، اس لیے ہم نے ’’ ہوش مندی‘‘ کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے ۔ ’’ ابراہیم کو اس کی ہوش مندی بخشی’’ یعنی جو ہوش مندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔ ’’ ہم اس کو خوب جانتے تھے ‘‘ ، یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیا آدمی ہے ، اس لیے ہم نے اس کو نوازا :اللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے ‘‘ (الانعام ، آیت 124) ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سرداران قریش کے اس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوۓ ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے ۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے دیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملک عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا ، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیت ہے ، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے ان کو اس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پاک کے مختلف پہلو اس سے پہلے سورہ بقرہ آیات 124 تا 141 ۔ 258 ۔ 260 الانعام، آیات 74 تا 81 جلد دوم ۔ التوبہ آیت 114 ۔ ھود ۔ آیات 69 تا 76 ۔ ابراہیم آیات 35 تا 41 ۔ الحجر آیات 15 تا 60 ۔ النحل، آیات 120 تا 133 میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا |
Surah 44 : Ayat 32
وَلَقَدِ ٱخْتَرْنَـٰهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور اُن کی حالت جانتے ہوئے، اُن کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی1
1 | یعنی بنی اسرائیل کی خوبیاں اور کمزوریاں دونوں اللہ پر عیاں تھیں اس نے بے دیکھے بھالے اس کا انتخاب اندھا دھند نہیں کر لیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی قومیں موجود تھیں ان میں سے اس قوم کو جب اس نے اپنے پیغام کا حامل اور اپنی توحید کی دعوت کا علمبردار بنانے کے لیے چنا تو اس بنا پر چنا کہ علم میں وقت کی موجود قوموں میں سے یہی اس کے لیے موزوں تر تھی |