Ayats Found (1)
Surah 14 : Ayat 22
وَقَالَ ٱلشَّيْطَـٰنُ لَمَّا قُضِىَ ٱلْأَمْرُ إِنَّ ٱللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ ٱلْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْۖ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَـٰنٍ إِلَّآ أَن دَعَوْتُكُمْ فَٱسْتَجَبْتُمْ لِىۖ فَلَا تَلُومُونِى وَلُومُوٓاْ أَنفُسَكُمۖ مَّآ أَنَا۟ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ أَنتُم بِمُصْرِخِىَّۖ إِنِّى كَفَرْتُ بِمَآ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُۗ إِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا "حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا2 اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا3 میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے"
3 | یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں ۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جوا ب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا ۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اورآگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رُہبان کو اربابٌ من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں (التوبہ۔ آیت ۱۳۷) ۔ خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان۔ آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں(یٰسین۔ آیت ۶۰)۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذن ِ خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ”شریک“ ہیں(الشوریٰ۔ آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی کی نظیر یں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر ، یا احکام ِ خداوندی کے علی الرغم ، اُس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے ۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملًا یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کوخدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعًا اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷۔ الکہف حاشیہ ۵۰) |
2 | یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہِ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا ، تو ضرور اسے پیش فرمائیے ، جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے ۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوتِ حق کے مقابلے میں اپنی دعوتِ باطل آپ کے سامنے پیش کی، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا ، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا۔ ماننے ااور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں ۔ مگر آپ نے جوا س پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اُٹھانی چاہیے |
1 | یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا۔ اس واقعے سے مجھے ہر گز انکار نہیں ہے ۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں ، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی ۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے، سب محض ڈھکوسلا ہے ، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت سے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے ، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو، نجات کا ذمہ اُن کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا، یہ سب محض دھوکا تھا |