Ayats Found (58)
Surah 13 : Ayat 5
۞ وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَءِذَا كُنَّا تُرَٲبًا أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ ٱلْأَغْلَـٰلُ فِىٓ أَعْنَاقِهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ 1"جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟" یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں2 یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے
2 | گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے ، اپنی ہٹ دھرمی کے ، اپنی خواہشات ِ نفس کے ، اور اپنے آباو اجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں ۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔ اِنہیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے ، اور انکا رِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نا معقول ہے |
1 | یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے ، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے |
Surah 17 : Ayat 10
وَأَنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے1
1 | مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اُس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے |
Surah 17 : Ayat 97
وَمَن يَهْدِ ٱللَّهُ فَهُوَ ٱلْمُهْتَدِۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِهِۦۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّاۖ مَّأْوَٮٰهُمْ جَهَنَّمُۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَـٰهُمْ سَعِيرًا
جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اسکے سوا ایسے لوگوں کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں پا سکتا1 ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گونگے اور بہرے2 اُن کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے
2 | یعنی جیسے وہ دنیا میں بن کررہے کہ نہ حق دیکھتے تھے، نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے، ویسے ہی وہ قیامت میں اُٹھائے جائیں گے۔ |
1 | یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا، تو اب اور کون ہے جو اس کو راہِ راست پر لاسکے؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا، اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لیے وہ اسباب فراہم کر دیے جن سے سچائی کے خلاف اُس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے، اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کر سکتی ہے؟ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبردستی ہدایت دے، اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے۔ |
Surah 17 : Ayat 98
ذَٲلِكَ جَزَآؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَقَالُوٓاْ أَءِذَا كُنَّا عِظَـٰمًا وَرُفَـٰتًا أَءِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا
یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا "کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟"
Surah 18 : Ayat 53
وَرَءَا ٱلْمُجْرِمُونَ ٱلنَّارَ فَظَنُّوٓاْ أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُواْ عَنْهَا مَصْرِفًا
سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے
Surah 18 : Ayat 105
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَآئِهِۦ فَحَبِطَتْ أَعْمَـٰلُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَزْنًا
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے1
1 | یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں، بہرحال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں، اپنے کار خانے اور معمل، اپنی سڑکیں اور ریلیں، اپنی ایجادیں اور صنعتیں، اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں، اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں، ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوۓ وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سکیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب کیا کرایا دنیاۓ فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوۓ کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔ |
Surah 25 : Ayat 11
بَلْ كَذَّبُواْ بِٱلسَّاعَةِۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِٱلسَّاعَةِ سَعِيرًا
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ 1"اُس گھڑی" کو جھٹلا چکے ہیں2 اور جو اُس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے
2 | یعنی جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی کسی قابل لحاظ بنیاد پر قرآن کے جعلی کلام ہونے کا شبہ ہے ، یا ان کو در حقیقت یہ گمان ہے کہ جن آزاد کردہ غلاموں کے یہ نام لیتے ہیں وہی تم کو سکھاتے پڑھاتے ہیں ، یا انہیں تمہاری رسالت پر ایمان لانے سے بس اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، یا ہو تمہاری تعلیم حق کو مان لینے کے لیے تیار تھے مگر صرف اس لیے رک گئے کہ نہ کوئی فرشتہ تمہاری اردلی میں تھا اور نہ تمہارے لیے کوئی خزانہ اتارا گیا تھا۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ آخرت کا انکار ہے جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملے میں بالکل غیر سنجیدہ بنا دیا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ، اور تمہاری معقول دعوت کو رد کرنے کے لیے ایسی ایسی مضحکہ انگیز حجتیں پیش کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے ذہن اس تخیل سے خالی ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں انہیں خدا کے سامنے جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس چار دن کی زندگی کے بعد مر کر سب کو مٹی ہو جانا ہے ۔ بت پرست بھی مٹی ہو جائے گا اور خدا پرست بھی اور منکر خدا بھی۔ نتیجہ کسی چیز کا بھی کچھ نہیں نکلنا ہے ۔ پھر کیا فرق پڑ جاتا ہے ۔ مشرک ہو کر مرنے اور موحد یا ملحد ہو کر مرنے میں ۔ صحیح اور غلط کے امتیاز کی اگر ان کے نزدیک کوئی ضرورت ہے تو اس دنیا کی کامیابی و ناکامی کے لحاظ سے ہے ۔ اور یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کسی عقیدے یا اخلاقی اصول کا بھی کوئی متعین نتیجہ نہیں ہے جو پوری یکسانی کے ساتھ ہر شخص اور ہر رویے کے معاملے میں نکلتا ہو۔ دہریے آتش پرست ، عیسائی، موسائی ، ستارہ پرست ، بت پرست، سب اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک عقیدہ نہیں جس کے متعلق تجربہ بتاتا ہو کہ اسے اختیار کرنے والا ، یا رد کر دینے والا اس دنیا میں لازماً خوش حال یا لازماً بد حال رہتا ہو۔ بد کار اور نیکو کار بھی یہاں ہمیشہ اپنے اعمال کا ایک ہی مقرر نتیجہ نہیں دیکھتے ۔ ایک بد کار مزے کر رہا ہے اور دوسرا سزا پا رہا ہے ۔ ایک نیکو کار مصیبت جھیل رہا ہے تو دوسرا معزز و محترم بنا ہوا ہے ۔ لہٰذا دنیوی نتائج کا اعتبار سے کسی مخصوص اخلاقی رویے کے متعلق بھی منکرین آخرت اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ وہ خیر ہے یا شر ہے ۔ اس صورت حال میں جب کوئی شخص ان کو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کی طرف دعوت دیتا ہے تو خواہ وہ کیسے ہی سنجیدہ اور معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے ، ایک منکر آخرت کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرے گا بلکہ طفلانہ اعتراضات کر کے اسے ٹال دے گا |
1 | اصل میں لفظ ’’ السّاعۃ ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور ال اس پر عہد کا ہے ، یعنی وہ مخصوص گھڑی جو آنے والی ہے ، جس کے متعلق ہم پہلے تم کو خبر دے چکے ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت خاص کے لیے بولا گیا ہے جب کہ قیامت قائم ہو گی، تمام اولین و آخرین از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ، سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے جزا یا سز ادے گا |
Surah 27 : Ayat 4
إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَـٰلَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے اُن کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں1
1 | یعنی خداکاقانونِ فطرت یہ ہے، نفسیاتِ انسانی کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اوراس کی سعی وعمل کےنتائج کوصرف اِسی دنیاتک محدود سمجھےگا، جب وہ کسی ایسی عدالت کاقائل نہ ہوگا جہاں انسان کےپورے کارنامےحیات پڑتال کرکےاس کےحُسن وقبح کاآخری اورقطعی فیصلہ کیاجانے والاہو، اور جب وہ موت کےبعد کسی ایسی زندگی کاقائل نہ ہوگا جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدروقیمت کےمطابق ٹھیک ٹھیک جزا وسزا دی جانےوالی ہو، تولازماََ اس کے اندر ایک مادہ پرسستانہ نقطہءنظرنشونما پائےگا۔ اسے حق اور باطل، شرک اور توحید، نیکی اوربدی اخلاق اور بداخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بےمعنی نظر آئیں گی۔ جو کچھ اُسے دنیامیں لزت وعیش اور مادی ترقی وخوشحالی اورقوت واقتدار سے ہمکنار کرےوہی اس کےنزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہءحیات اورکوئی طرزِزندگی اورنظام اخلاقی ہو۔ اس کو حقیقت اورصداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی۔ اس کی اصل مطلوب صرف حیاتِ دنیا کی زینتیں اورکامرنیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہروادی میں لیےبھٹکی پھرےگی۔ اوراس مقصد کےلیے جو کچھ بھی وہ کرےگااسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اوراُلٹا اُن لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جواُس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بداخلاقی سے بےنیازہوکرہرکام کرگزرنےمیں بےباک نہیں ہیں۔ کسی کے اعمال بدکواس کےلیے خوشنمابنادینےکایہ فعل قرآن مجید میں کبھی اللہ تعالٰی کی طرف منسوب کیاگیا ہے اور کبھی شیطان کی طرف۔ جب اسے اللہ تعالٰی کی طرف منسوب کیاجاتاہے تو اس سے مراد جیسا کہ اوپر بیان ہُوا، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطہءنظر اختیارکرتا ہے، اسے فطرۃََ زندگی کایہی ہنجار خوش آئند محسوس ہوتا ہے۔ اور جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیاجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش برخوداربہت اچھے جارہے ہیں۔ |
Surah 27 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَهُمْ سُوٓءُ ٱلْعَذَابِ وَهُمْ فِى ٱلْأَخِرَةِ هُمُ ٱلْأَخْسَرُونَ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُری سزا ہے1 اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں
1 | اس بُری سزا کی صورت، وقت اور جگہ کاتعین نہیں کیا گیاہے، کیونکہ یہ اِس دنیا میں بھی مختلف افراد گروہوں اورقوموں کو بےشمار مختلف طریقوں سے ملتی ہے، اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت عین موت کے دروازے پر بھی اس کا حصہ ظالموں کو پہنچتا ہے، موت کے بعد عالم پرزخ میں بھی اس سے آدمی دوچار ہوتا ہے، اور پھر روزحشر سے تو اس کا ایک سلسلہ شروع ہوجائےگا جو پھرکہین جاکر ختم نہ ہوگا۔ |
Surah 29 : Ayat 23
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ وَلِقَآئِهِۦٓ أُوْلَـٰٓئِكَ يَئِسُواْ مِن رَّحْمَتِى وَأُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں1 اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے
1 | یعنی ان کا کوئی حصہ میری رحمت میں نہیں ہے۔ ان کے لیے کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ وہ میری رحمت میں سے حصہ پانے کی امید رکھ سکیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا تو خود بخود اُن وعدوں سے فائدہ اٹھانے کے حق سے بھی وہ دست بردار ہوگئے جو اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں سے کیے ہیں۔ پھر جب انہوں نے آخرت کا انکار کیا اور یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ انہیں کبھی اپنے خدا کے حضور پیش ہونا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے خدا کی بخشش و مغفرت کے ساتھ کوئی رشتہ امید سرے سے وابستہ ہی نہیں کیا ہے اس کے بعد جب اپنی توقعات کے خلاف وہ عالم آخرت میں آنکھیں کھولیں گے اور اللہ کی اُن آیات کو بجی اپنی آنکھوں سے سچا اور برحق دیکھ لیں گے جنہیں وہ جھٹلا چکے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ رحمت الہی میں سے کوئی حصہ پانے کے امیدوار ہو سکیں |