Ayats Found (61)
Surah 7 : Ayat 18
قَالَ ٱخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًاۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ
فرمایا، " نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا یقین رکھ کہ اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا
Surah 15 : Ayat 42
إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ إِلَّا مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ
بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں1
1 | اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے |
Surah 15 : Ayat 43
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ
اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے1"
1 | اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے ۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست ، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔ اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔ تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے ، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے ، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔ (اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم ، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱) |
Surah 17 : Ayat 63
قَالَ ٱذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُورًا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے
Surah 19 : Ayat 68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَٱلشَّيَـٰطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا
تیرے رب کی قسم، ہم ضرور ان سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی 1گھیر لائیں گے، پھر جہنم کے گرد لا کر انہیں گھٹنوں کے بل گرا دیں گے
1 | یعنی ان شیاطین کو جن کے یہ چیلے بنے ہوۓ ہیں اور جن کے سکھاۓ پڑھاۓ میں آ کرانہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔ |
Surah 26 : Ayat 95
وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ
اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اُوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے
1 | اصل میں لفظ : کُبْکِبُوْا فرمایا گیا ہے جس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ ایک کے اوپر ایک دھکیل دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ وہ قعر جہنم تک لڑھکتے چلے جائیں گے |
Surah 38 : Ayat 85
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ
کہ میں جہنم کو تجھ سے اور اُن سب لوگوں سے بھر دوں گا جو اِن انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے1"
1 | یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا، ’’کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا‘‘؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر 9 اور 10 میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو،اور کیا آسمان و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے،اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ،آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے۔ابلیس نے بھی اللہ تعالٰی کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے،اور تم بھی اُس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے۔اس نے آدم کے آگے جھُکنے کا حکم نہ مانا اور تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو۔اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت بس اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی،بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے، یعنی دنیا میں خدا کی لعنت، اور آخرت میں جہنم کی آگ۔اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں۔ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اُس ازلی دشمن،ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالٰی کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبّر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے۔ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے۔ |
Surah 2 : Ayat 24
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُۖ أُعِدَّتْ لِلْكَـٰفِرِينَ
تو یہ کام کر کے دکھاؤ1، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر2، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے
2 | اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے، بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے |
1 | اِس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اِس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھا ؤ ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جارہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ یونس ؑ ، آیت ۴۸ و سُورہٴ ہُود ، آیت ۱۳ ۔ بنی اسرائیل ، آیت ۸۸۔ الطور، آیت ۲۳۔۳۴) |
Surah 2 : Ayat 217
يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَكُفْرُۢ بِهِۦ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِۦ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ ٱللَّهِۚ وَٱلْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ ٱلْقَتْلِۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَـٰتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ ٱسْتَطَـٰعُواْۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَـٰٓئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَـٰلُهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اِس میں لڑ نا بہت برا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے1 وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے، تو تمہیں اِس دین سے پھرا لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے2
2 | مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ ، جن کے ذہن پر نیکی اور صُلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلّط تھا، کفّارِ مکّہ اور یہُودیوں کے مذکورہٴ بالا اعتراضات سے متاثر ہوگئے تھے۔ اس آیت میں انھیں سمجھایا گیا ہے کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ اُمید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی۔ اُن کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں۔ وہ تو در اصل کیچڑ اُچھالنا چاہتے ہیں۔ انھیں یہ بات کَھل رہی ہے کہ تم اِس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دُنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو۔ پس جب تک وہ اپنے کُفر پر اَڑے ہوئے ہیں اور تم اس دین پر قائم ہو، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اور ایسے دُشمنوں کو تم معمُولی دُشمن بھی نہ سمجھو۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے، وہ کمتر درجے کا دُشمن ہے۔ مگر جو تمہیں دینِ حق سے پھیرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارا بدترین دُشمن ہے۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دُنیا ہی خراب کرتا ہے، لیکن یہ دُوسرا تمہیں آخرت کے اَبدی عذاب میں دھکیل دینے پر تُلا ہوا ہے |
1 | یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے، مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیااور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہء اعمال اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے انھیں اس پر داد دی ہو |
Surah 2 : Ayat 257
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّـٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَـٰتِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے1 اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں2 اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے3
3 | اُوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اُسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی، اس لیے وضوحِ حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا، سو اللہ ان کی تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہٴ غیب میں چھُپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا |
2 | ”طاغُوت“یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دُوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اور بےشمار طاغوت باہر کی دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ بیوی اوربچّے ، اعزّہ اور اقربا ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقا ؤ ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔ |
1 | تاریکیوں سے مُراد جہالت کی تاریکیاں ہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دُور نِکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صَرف کرنے لگتا ہے۔ اور نُور سے مُراد علمِ حق ہے، جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر اعلیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے |