Ayats Found (1)
Surah 29 : Ayat 14
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ ٱلطُّوفَانُ وَهُمْ ظَـٰلِمُونَ
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا1 اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا2 آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے3
3 | یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب بھتیجا |
2 | اس کا یہ ملطب نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سر فراز ہونے کے بعد سے طوفان تک ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم ستے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھر میاں برداشت کرتے گزرے ہیں۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبرو ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلمسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔ حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بایئبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ وپ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے (پیدایش، باب۷۔ آیت ۶۔ باب۹۔ آیت ۸۲۸۔۲۹)۔ لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبیلغ میں صرف کی ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پنخچے کے بعد یہ ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اگر کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا اُس خدا کے لیے بھی مکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہیے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اگر خدا چاہیے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے |
1 | تقابل کے لیے ملاخطہ ہو آل عمران، آیات ۳۳۔۳۴۔ النساء ۱۲۳۔ الانعام ۷۴۔ الاعرف ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ۷۱۔۷۳۔ ہود ۲۵۔۴۸۔ الانبیاء ۷۲۔۷۷۔ المومنون، ۲۳۔۳۰۔ الفرقان، ۳۷۔ الزشعراء۔ ۱۲۳۔ الصافات، ۷۵۔۸۲۔ القمر، ۹۔ ۱۵۔ الحاقہ، ۱۱۔۱۲۔ نوح۔ مکمل۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اُن سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جا رہے ہیں |