Ayats Found (35)
Surah 43 : Ayat 77
وَنَادَوْاْ يَـٰمَـٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَۖ قَالَ إِنَّكُم مَّـٰكِثُونَ
وہ پکاریں گے، 1"اے مالک، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے" وہ جواب دے گا، "تم یوں ہی پڑے رہو گے
1 | مالک سے مراد ہے جہنم کا داروغہ جیسا کہ فحواۓ کلام سے خود ظاہر ہو رہا ہے |
Surah 2 : Ayat 39
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے1، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے2"
2 | یہ نسلِ انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ”عہد“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گو نہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامُور ہے کہ اُس راستے کی پیروی کرے جس اس کا ربّ اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں : یا تو کسی انسان کے پاس براہِ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اُس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صُورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ ربّ کی رضا کس راہ میں ہے۔ اِن دو صُورتوں کے ماسوا ہر صُورت غلط ہے، بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نَوعِ انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسبِ ذیل ہیں: الاعراف، رکوع ۲ ۔ بنی اسرائیل، رکوع ۷۔ الکہف، رکوع ۷، طٰہٰ، رکوع ۷۔ صٓ، رکوع ۵۔ بائیبل کی کتاب ِ پیدائش، باب اوّل، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحبِ نظر انسان محسُوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا ، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟ ًتو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ۔ ً تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں‘ بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے |
1 | آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اُس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستُور ہے۔ کہیں اُن معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے ، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں ، اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں”آیت“ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے |
Surah 2 : Ayat 81
بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَـٰطَتْ بِهِۦ خَطِيٓــَٔتُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا
Surah 2 : Ayat 217
يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَكُفْرُۢ بِهِۦ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِۦ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ ٱللَّهِۚ وَٱلْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ ٱلْقَتْلِۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَـٰتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ ٱسْتَطَـٰعُواْۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَـٰٓئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَـٰلُهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اِس میں لڑ نا بہت برا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے1 وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے، تو تمہیں اِس دین سے پھرا لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے2
2 | مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ ، جن کے ذہن پر نیکی اور صُلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلّط تھا، کفّارِ مکّہ اور یہُودیوں کے مذکورہٴ بالا اعتراضات سے متاثر ہوگئے تھے۔ اس آیت میں انھیں سمجھایا گیا ہے کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ اُمید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی۔ اُن کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں۔ وہ تو در اصل کیچڑ اُچھالنا چاہتے ہیں۔ انھیں یہ بات کَھل رہی ہے کہ تم اِس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دُنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو۔ پس جب تک وہ اپنے کُفر پر اَڑے ہوئے ہیں اور تم اس دین پر قائم ہو، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اور ایسے دُشمنوں کو تم معمُولی دُشمن بھی نہ سمجھو۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے، وہ کمتر درجے کا دُشمن ہے۔ مگر جو تمہیں دینِ حق سے پھیرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارا بدترین دُشمن ہے۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دُنیا ہی خراب کرتا ہے، لیکن یہ دُوسرا تمہیں آخرت کے اَبدی عذاب میں دھکیل دینے پر تُلا ہوا ہے |
1 | یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے، مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیااور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہء اعمال اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے انھیں اس پر داد دی ہو |
Surah 2 : Ayat 257
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّـٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَـٰتِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے1 اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں2 اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے3
3 | اُوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اُسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی، اس لیے وضوحِ حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا، سو اللہ ان کی تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہٴ غیب میں چھُپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا |
2 | ”طاغُوت“یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دُوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اور بےشمار طاغوت باہر کی دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ بیوی اوربچّے ، اعزّہ اور اقربا ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقا ؤ ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔ |
1 | تاریکیوں سے مُراد جہالت کی تاریکیاں ہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دُور نِکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صَرف کرنے لگتا ہے۔ اور نُور سے مُراد علمِ حق ہے، جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر اعلیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے |
Surah 2 : Ayat 275
ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٲاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٲاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٲاْۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں1، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو2 اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: 3"تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام4 لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے5 اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا
5 | یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ ء نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے |
4 | تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃ (١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت ، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (۲)تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصُول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ (۳)تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ اکرایہ دار کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ (۳) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے |
3 | ”یعنی ان کے نظریّے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سُود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یُوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہُوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اِسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سُود خوار بھی سُود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اُٹھا سکتا تھا، اُسے وہ قرض پر دُوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دُوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اُٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصّہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دُنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خوا ہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زرعت کے ، اور خواہ انھیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے، اُن میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ(Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دُنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دارہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اُسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبارکا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل اُنہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شُدہ منافع وُصُول کرتا چلا جائے! یہ آخر کس عقل ، کس منطق، کس اُصُولِ انصاف اور کس اُصُولِ معاشیات کی رُو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اُتار چڑھا ؤ ہو گا؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سُودوصُول کرتا رہے |
2 | اہلِ عرب دیوانے آدمی کو”مجنُون“ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبُود پر کس قدر تباہ کُن اثر پرڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اِس دُنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اُسی حالت میں اُٹھایا جائے گا جس حالت پر اُس نے دنیا میں جان دی ہے، اِس لیے سُود خوار آدمی قیامت کے روز ایک با ؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صُورت میں اُٹھے گا |
1 | صل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، کس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ نزُولِ قرآن کے وقت سُودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہلِ عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دُوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدّت مقرر کر دیتا۔ اگر وہ مدّت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دُورے شخص کو قرض دیتا اور اس سےطے کر لیتا کہ اتنی مدّت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدّت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدّت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اِسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے |
Surah 3 : Ayat 116
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَن تُغْنِىَ عَنْهُمْ أَمْوَٲلُهُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُهُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔاۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۚ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو نہ ان کا مال کچھ کام دے گا نہ اولاد، وہ تو آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے
Surah 7 : Ayat 36
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱسْتَكْبَرُواْ عَنْهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے1
1 | یہ بات قرآن مجید میں ہر جگہ اُس موقع پر ارشاد فرمائی گئی ہےجہاں آدم وحوّاعلیہ السلام کے جنت سے اتارے جانے کا ذکر آیا ہے(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیات۳۸۔۳۹۔طٰہٰ۔ آیات ١۲۳۔١۲۴)لہٰذا یہاں بھی اس کو اسی موقع سے متعلق سمجھا جائےگا، یعنی نوعِ انسانی کی زندگی کا آغاز جب ہو رہا تھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی(ملاحظہ ہو سورہ آل عمران، حاشیہ ٦۹) |
Surah 10 : Ayat 26
۞ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ ٱلْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جن لوگوں نے بھَلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھَلائی ہے اور مزید فضل1 ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
1 | یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا |
Surah 13 : Ayat 5
۞ وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَءِذَا كُنَّا تُرَٲبًا أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ ٱلْأَغْلَـٰلُ فِىٓ أَعْنَاقِهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ 1"جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟" یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں2 یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے
2 | گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے ، اپنی ہٹ دھرمی کے ، اپنی خواہشات ِ نفس کے ، اور اپنے آباو اجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں ۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔ اِنہیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے ، اور انکا رِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نا معقول ہے |
1 | یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے ، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے |