Ayats Found (2)
Surah 11 : Ayat 45
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُۥ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ٱبْنِى مِنْ أَهْلِى وَإِنَّ وَعْدَكَ ٱلْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ ٱلْحَـٰكِمِينَ
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا 1"اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے2"
2 | یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کام انصاف کے ساتھ کرتا ہے |
1 | یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا ، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے ، لہٰذا اسے بھی بچالے |
Surah 11 : Ayat 47
قَالَ رَبِّ إِنِّىٓ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْــَٔلَكَ مَا لَيْسَ لِى بِهِۦ عِلْمٌۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِى وَتَرْحَمْنِىٓ أَكُن مِّنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ
نوحؑ نے فوراً عرض کیا 1"اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا"
1 | پسر نوح کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اُس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں۔ اور بہت سے غلط کا ر مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں ، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھا یا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے ، لیکن دربار خداوندی سے اُلٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے ارو باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی |