Ayats Found (1)
Surah 11 : Ayat 44
وَقِيلَ يَـٰٓأَرْضُ ٱبْلَعِى مَآءَكِ وَيَـٰسَمَآءُ أَقْلِعِى وَغِيضَ ٱلْمَآءُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
حکم ہوا 1"اے زمین، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان، رک جا" چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹک گئی، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قو م!
1 | جودی پہاڑ کُردستان کے علاقہ میں جزیرہ ابن عمر کے شمالی مشرقی جانب واقع ہے۔ بائیبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے۔ سلسلہ کوہستان کے معنی ہیں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیاکی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کروستان تک چلتا ہے اور جبل الجوری اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے، قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چناچہ مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے مذہبی پیشوا بیرسُس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھہرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔ یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوحؑ کی قوم آباد تھی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائیش۲۴:۱۸:۸ ) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے۔ قرآن کے ارشادات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے، آثارقدسیہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے، لیکن روئے زمین کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جاسکے۔ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں، حتٰی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباؤ اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف، حاشیہ نمبر۴۷) |