Ayats Found (12)
Surah 4 : Ayat 62
فَكَيْفَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةُۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَآءُوكَ يَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ إِنْ أَرَدْنَآ إِلَّآ إِحْسَـٰنًا وَتَوْفِيقًا
پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں1 اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے
1 | غالباً اس سے مراد یہ ہےکہ جب ان کی اِس منافقانہ حرکت کا مسلمانوں کو علم ہو جاتا ہے اور انہیں خوف ہوتا ہے کہ اب باز پرس ہوگی اور سزا ملے گی اُس وقت قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلانے لگتے ہیں |
Surah 4 : Ayat 63
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يَعْلَمُ ٱللَّهُ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ قَوْلاَۢ بَلِيغًا
اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے
Surah 9 : Ayat 42
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّٱتَّبَعُوكَ وَلَـٰكِنۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ ٱلشُّقَّةُۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَوِ ٱسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَـٰذِبُونَ
اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا1 اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں
1 | یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا |
Surah 9 : Ayat 56
وَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ
وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں
Surah 9 : Ayat 62
يَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤْمِنِينَ
یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں
Surah 9 : Ayat 95
سَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَكُمْ إِذَا ٱنقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُواْ عَنْهُمْۖ فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمْۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌۖ وَمَأْوَٮٰهُمْ جَهَنَّمُ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو تو بے شک تم ان سے صرف نظر ہی کر لو1، کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہوگی
1 | پہلے فقرے میں صَرفِ نظر سے مراد درگزر ہے اور دوسرے فقرے میں قطع تعلق۔ یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ان سے تعرض نہ کرو، مگر بہتر یہ ہے کہ تم ان سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو اور سمجھ لو کہ تم ان سےکٹ گئے اور وہ تم سے |
Surah 9 : Ayat 96
يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْاْ عَنْهُمْۖ فَإِن تَرْضَوْاْ عَنْهُمْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ ٱلْقَوْمِ ٱلْفَـٰسِقِينَ
یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے کہ تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہوگا
Surah 9 : Ayat 74
يَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ ٱلْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلَـٰمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْۚ وَمَا نَقَمُوٓاْ إِلَّآ أَنْ أَغْنَـٰهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ مِن فَضْلِهِۦۚ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا لَّهُمْۖ وَإِن يَتَوَلَّوْاْ يُعَذِّبْهُمُ ٱللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۚ وَمَا لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے1 وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے2 یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے نا کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا3 ہے! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آ جائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت درد ناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو اِن کا حمایتی اور مددگار ہو
3 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اَوس و خَزرَج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتح دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا۔ وہی اوس و خزرج کےکاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات ، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں |
2 | یہ اشارہ ہے اُن سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوۂ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے ۔ حضور کو اس کی اطلاع ہو گئی۔ آپ نے تمام اہلِ لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں، اور آپ خود صرف عمّار بن یاسرؓ اور حُذَیفَہ بن یمانؓ کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہؓ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں ۔ مگر وہ دُور ہی سے حضرت حذیفہؓ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہنچان نہ لیے جائیں فورًا بھاگ نکلے۔ دوری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آجانے کی توقع نہ تھی ، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن اُبَیّ کے سر پر تاج ِ شاہی رکھ دیا جائے |
1 | وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں۔ مثلًا ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) پیش کر تا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھررہے تھے۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ”یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے“ |
Surah 58 : Ayat 14
۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ تَوَلَّوْاْ قَوْمًا غَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى ٱلْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے دوست بنایا ہے ایک ایسے گروہ کو جو اللہ کا مغضوب ہے؟1 وہ نہ تمہارے ہیں نہ اُن کے2، اور وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں3
3 | یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لاۓ ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں |
2 | یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہاہل ایمان سے ہے نہ یہود سے۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے |
1 | اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا |
Surah 58 : Ayat 18
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُۥ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْۖ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَىْءٍۚ أَلَآ إِنَّهُمْ هُمُ ٱلْكَـٰذِبُونَ
جس روز اللہ ان سب کو اٹھائے گا، وہ اس کے سامنے بھی اُسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں1 اور اپنے نزدیک یہ سمجھیں گے کہ اس سے ان کا کچھ کام بن جائے گا خوب جان لو، وہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں
1 | یعنی یہ صرف دنیا ہی میں اور صرف انسانوں ہی کے سامنے جھوٹی قَسمیں کھانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آخرت میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے بھی یہ جھوٹی قَسمیں کھانے سے باز نہ رہیں گے۔ جھوٹ اور فریب ان کے اندر اتنا گہرا اُتر چکا ہے کہ مر کر بھی یہ ان سے نہ چھوٹے گا |