Ayats Found (19)
Surah 7 : Ayat 64
فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَـٰهُ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمًا عَمِينَ
مگر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر کار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور اُن لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا1، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے
1 | جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کر تا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف اُن اہم اجزاء کو پیش کرتا ہےجو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کر تا ہے تو ہر جگہ مقصد کی منا سبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی قصّہ نوح ؑ کو لیجیے۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوح ؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور حضرت نوح ؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری۔ ملا حظہ ہو سورہ عنکبوت، آیت١۴۔ اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھر تی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجا ئش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد وہ اِس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ بر سرِ موقع چکا دیا جائے۔ یہ نوعیت معاملہ اُن قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچاہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اُسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا۔ مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب اُن قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سر گشتہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے نا واقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجہ طبعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو بُھلا وے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آکر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے |
Surah 10 : Ayat 73
فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَـٰهُ وَمَن مَّعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ وَجَعَلْنَـٰهُمْ خَلَـٰٓئِفَ وَأَغْرَقْنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَاۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُنذَرِينَ
انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوں نے مان کر نہ دیا) اُن کا کیا انجام ہوا
Surah 11 : Ayat 42
وَهِىَ تَجْرِى بِهِمْ فِى مَوْجٍ كَٱلْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ٱبْنَهُۥ وَكَانَ فِى مَعْزِلٍ يَـٰبُنَىَّ ٱرْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی نوحؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا نوحؑ نے پکار کر کہا "بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ"
Surah 11 : Ayat 43
قَالَ سَـَٔـاوِىٓ إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِى مِنَ ٱلْمَآءِۚ قَالَ لَا عَاصِمَ ٱلْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا ٱلْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ ٱلْمُغْرَقِينَ
اُس نے پلٹ کر جواب دیا "میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا" نوحؑ نے کہا، آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے" اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا
Surah 21 : Ayat 76
وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ فَنَجَّيْنَـٰهُ وَأَهْلَهُۥ مِنَ ٱلْكَرْبِ ٱلْعَظِيمِ
اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا1 تھا ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم 2سے نجات دی
2 | کرب عظیم سے مراد یاتو ایک بد کردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے ، یا پھر طوفان ۔ حضرت نوح کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف، آیات 59 تا 64 ۔ یونس ، آیات 71 تا 73 ۔ ھود۔ آیات 25 تا 48 ، بنی اسرائیل ، آیت 3 |
1 | اشارہ ہے حضرت نوح کی اس دعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنے کے بعد آخر کار تھک کر انہوں نے مانگی تھی : اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَاتْتَصِرْ، ’’ پروردگار ، میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب میری مدد کو پہنچ‘‘ (القمر ۔ آیت 10) ۔ اور : رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْ ض، مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّا راً ہ ’’ پرور دگار ، زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ‘‘ (نوح ۔ آیت 26 ) |
Surah 21 : Ayat 77
وَنَصَرْنَـٰهُ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَـٰهُمْ أَجْمَعِينَ
اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا تھا وہ بڑے بُرے لوگ تھے، پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا
Surah 25 : Ayat 37
وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا كَذَّبُواْ ٱلرُّسُلَ أَغْرَقْنَـٰهُمْ وَجَعَلْنَـٰهُمْ لِلنَّاسِ ءَايَةًۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّـٰلِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا
یہی حال قوم نوحؑ کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب1 کی ہم نے اُن کو غرق کر دیا اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنا دیا اور ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہم نے مہیا کر رکھا ہے2
1 | چونکہ انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ بشر کبھی رسول بن کر آ سکتا ہے ، اس لیے ان کی تکذیب تنہا حضرت نوح کی تکذیب ہی نہ تھی بلکہ بجائے خود منصب نبوت کی تکذیب تھی |
Surah 26 : Ayat 119
فَأَنجَيْنَـٰهُ وَمَن مَّعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ
آخرکار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا1
1 | ’’ بھری ہوئی کشتی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ کشتی ایمان لانے والے انسانوں اور تمام جانوروں سے بھر گئی تھی جن کا ایک ایک جوڑا ساتھ رکھ لینے کی ہدایت فرمائی گئی تھی۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود، آیت 40 |
Surah 26 : Ayat 122
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
Surah 29 : Ayat 14
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ ٱلطُّوفَانُ وَهُمْ ظَـٰلِمُونَ
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا1 اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا2 آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے3
3 | یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب بھتیجا |
2 | اس کا یہ ملطب نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سر فراز ہونے کے بعد سے طوفان تک ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم ستے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھر میاں برداشت کرتے گزرے ہیں۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبرو ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلمسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔ حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بایئبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ وپ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے (پیدایش، باب۷۔ آیت ۶۔ باب۹۔ آیت ۸۲۸۔۲۹)۔ لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبیلغ میں صرف کی ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پنخچے کے بعد یہ ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اگر کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا اُس خدا کے لیے بھی مکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہیے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اگر خدا چاہیے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے |
1 | تقابل کے لیے ملاخطہ ہو آل عمران، آیات ۳۳۔۳۴۔ النساء ۱۲۳۔ الانعام ۷۴۔ الاعرف ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ۷۱۔۷۳۔ ہود ۲۵۔۴۸۔ الانبیاء ۷۲۔۷۷۔ المومنون، ۲۳۔۳۰۔ الفرقان، ۳۷۔ الزشعراء۔ ۱۲۳۔ الصافات، ۷۵۔۸۲۔ القمر، ۹۔ ۱۵۔ الحاقہ، ۱۱۔۱۲۔ نوح۔ مکمل۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اُن سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جا رہے ہیں |