Ayats Found (4)
Surah 11 : Ayat 40
حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُ قُلْنَا ٱحْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ وَمَنْ ءَامَنَۚ وَمَآ ءَامَنَ مَعَهُۥٓ إِلَّا قَلِيلٌ
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا 2"ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں13" اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے
3 | اس سے اُن مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرۂ نسب حضرت نوح کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوحؑ اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا (ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ۶ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹)۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کے سوااُن کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوحؑ کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا، ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل آیت ۳) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (مریم، آیت ۵۸) |
2 | یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ۔ غالبًا یہ دو ہی شخص تھے۔ ایک حضرت نوح ؑ کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے۔ دوسری حضرت نوح ؑ کی بیوی جس کا ذکر سورۂ تحریم میں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے |
1 | اس سے مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرہ نسب حضرت نوح کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلادی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوح اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا ( ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائیش ۱۹:۹:اور۹،۷:اور ۸:۶) لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کے سوا اُن کی قوم کی ایک معتسدبہ تعداد کو بھی، اگرچہ وہ تھوڑی تھی، اللہ نے طوفان سے بچالیا تھا۔ نیز قرآن بعد کی انسانی نسلوں کو صرف نوحؑ کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کی اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا، ذُرِیِتہَ مِن حَمَلنَا مَعَ نُوح(بنی اسرائیل آیت۳) اور مِن ذُرِیَتہِ ادَمَ وَمِمَنُ حَمَُنَا مَعَ نُوح (مریم آیت۵۸) |
Surah 11 : Ayat 41
۞ وَقَالَ ٱرْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ ٱللَّهِ مَجْر۪ٮٰهَا وَمُرْسَـٰهَآۚ إِنَّ رَبِّى لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
نوحؑ نے کہا 1"سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"
1 | یہ ہے مومن کی اصلی شان ۔ وہ عالمِ اسباب میں ساری تدابیر قانون فطرت کے مطابق اسی طرح اختیار کرتا ہے جس طرح اہلِ دنیا کرتے ہیں، مگر اس کا بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ پر ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ تو ٹھیک شروع ہو سکتی ہے ، نہ ٹھیک چل سکتی ہے اور نہ آخری مطلوب تک پہنچ سکتی ہے جب تک اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو |
Surah 23 : Ayat 27
فَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ أَنِ ٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُۙ فَٱسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ مِنْهُمْۖ وَلَا تُخَـٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
ہم نے اس پر وحی کی کہ 1"ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں
1 | بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے ، بعض نے زمین کا بلند ترین حصہ مراد لیا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّور کا مطلب طلوع فجر ہ ، اور بعض کی راۓ میں یہ : حمی الوطیس ، کی طرح ایک استعارہ ہے ’’ ہنگامہ گرم ہو جانے ‘‘ کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نام زد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی ابلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی ابل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا |
Surah 23 : Ayat 30
إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ
اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں1 اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں2
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ آزمائش تو ہمیں کرنی ہی تھی‘‘، یا ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے ‘‘۔ تینوں صورتوں میں مدعا اس حقیقت پر خبر دار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہی ہے۔ قوم نوح کے ساتھ جو کچھ ہوا اسی قانون کے مطابق ہوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوان یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے |
1 | یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر صرار کرنے والے کفار باطل پر، اور یہ کہ آج وہی صورت حال مکہ میں در پیش ہے جو کسی وقت حضرت نوح اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے ، اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخر کار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازماً اہل حق کے حق میں اور اہل باطل کے خلاف ہوتا ہے |