Ayats Found (4)
Surah 11 : Ayat 107
خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں1، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے2
2 | یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔البتہ اگر اللہ تعالٰیخود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہیے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کی بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کو پورا اختیار ہے کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو |
1 | ان الفاظ سے یا تو عالم آ خرت کے زمین و آسمان مراد ہیں یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا زکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں |
Surah 23 : Ayat 109
إِنَّهُۥ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِى يَقُولُونَ رَبَّنَآ ءَامَنَّا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٲحِمِينَ
تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے
Surah 23 : Ayat 110
فَٱتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰٓ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِى وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ
تو تم نے ان کا مذاق بنا لیا یہاں تک کہ اُن کی ضد نے تمہیں یہ بھی بھُلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں، اور تم ان پر ہنستے رہے
Surah 35 : Ayat 37
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا غَيْرَ ٱلَّذِى كُنَّا نَعْمَلُۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ ٱلنَّذِيرُۖ فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ 1"اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں اُن اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے" (انہیں جواب دیا جائے گا) "کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتاتھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا اب مزا چکھو ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے"
1 | اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رُو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائی گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ)۔ |