Ayats Found (13)
Surah 7 : Ayat 59
لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓ إِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا1 اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں"
2 | یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی ، نہ اس سے نا واقف تھی، نہ اُسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہو گئی تھی، شرک کی گمراہی تھی۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے لیا تھا۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمارخرابیاں اس قوم میں رونما ہو گئیں۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھہرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہو گیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نِیچ کی تقسیم پیدا کر دی، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا او اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ حضرت نوح ؑ نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زنانہ در از تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی دتد بیر کار گر نہ ہوئی ۔ آخر کار حضرت نوح ؑ نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بد کار او نمک حرام ہی پیدا ہو گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود، رکوع۳۔ سورہ شعراء رکوع٦۔ اور سورہ نوح مکمل) |
1 | اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم سے کی گئی ہے، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم ؑ اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح ؑ کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا۔ قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آرہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح ؑ کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی نبا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔ حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ،مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نےاپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھا ری خول چڑھادیا |
Surah 7 : Ayat 64
فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَـٰهُ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآۚ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْمًا عَمِينَ
مگر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر کار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور اُن لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا1، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے
1 | جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کر تا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف اُن اہم اجزاء کو پیش کرتا ہےجو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کر تا ہے تو ہر جگہ مقصد کی منا سبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی قصّہ نوح ؑ کو لیجیے۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوح ؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور حضرت نوح ؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری۔ ملا حظہ ہو سورہ عنکبوت، آیت١۴۔ اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھر تی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجا ئش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد وہ اِس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ بر سرِ موقع چکا دیا جائے۔ یہ نوعیت معاملہ اُن قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچاہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اُسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا۔ مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب اُن قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سر گشتہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے نا واقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجہ طبعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو بُھلا وے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آکر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے |
Surah 29 : Ayat 14
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ ٱلطُّوفَانُ وَهُمْ ظَـٰلِمُونَ
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا1 اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا2 آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے3
3 | یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب بھتیجا |
2 | اس کا یہ ملطب نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سر فراز ہونے کے بعد سے طوفان تک ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم ستے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھر میاں برداشت کرتے گزرے ہیں۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبرو ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلمسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔ حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بایئبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ وپ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے (پیدایش، باب۷۔ آیت ۶۔ باب۹۔ آیت ۸۲۸۔۲۹)۔ لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبیلغ میں صرف کی ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پنخچے کے بعد یہ ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اگر کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا اُس خدا کے لیے بھی مکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہیے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اگر خدا چاہیے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے |
1 | تقابل کے لیے ملاخطہ ہو آل عمران، آیات ۳۳۔۳۴۔ النساء ۱۲۳۔ الانعام ۷۴۔ الاعرف ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ۷۱۔۷۳۔ ہود ۲۵۔۴۸۔ الانبیاء ۷۲۔۷۷۔ المومنون، ۲۳۔۳۰۔ الفرقان، ۳۷۔ الزشعراء۔ ۱۲۳۔ الصافات، ۷۵۔۸۲۔ القمر، ۹۔ ۱۵۔ الحاقہ، ۱۱۔۱۲۔ نوح۔ مکمل۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اُن سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جا رہے ہیں |
Surah 10 : Ayat 71
۞ وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦ يَـٰقَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِى وَتَذْكِيرِى بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ فَعَلَى ٱللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوٓاْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ ٱقْضُوٓاْ إِلَىَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اِن کو نوحؑ1 کا قصہ سناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ “اے برادران قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کو ئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو2
2 | یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو، ہود، آیت ۵۵) |
1 | یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اب ان کے اُس طرزِعمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اِس سیدھی سیدھی اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پرغور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے، اُلٹے اُس شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذانی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سےاور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تاکہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِعمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالٰی اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نُوحؑ کا قصہ سُنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔ |
Surah 10 : Ayat 73
فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَـٰهُ وَمَن مَّعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ وَجَعَلْنَـٰهُمْ خَلَـٰٓئِفَ وَأَغْرَقْنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَاۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُنذَرِينَ
انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوں نے مان کر نہ دیا) اُن کا کیا انجام ہوا
Surah 11 : Ayat 25
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦٓ إِنِّى لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا 1(اُس نے کہا) "میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں
1 | مناسب ہو کہ اس موقع پر سورۂ اعراف رکوع ۸ کے حواشی پیشِ نظر رکھے جائیں |
Surah 11 : Ayat 35
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَعَلَىَّ إِجْرَامِى وَأَنَا۟ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ
اے محمدؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو 1"اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں"
1 | اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتتا ہے اور اس طرح ”درحدیث دیگراں“ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرےپہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے”چوٹ“ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے ۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور این بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے ۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں |
Surah 23 : Ayat 23
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا1 اس نے کہا 2"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟"
2 | یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوۓ ڈر نہیں لگتا؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک و فرمانروا ہے اس کی سلطنت میں رہ کر اس کے بجائےدوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے اور دوسروں کی ربوبیت و خداوندی تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہوں گے |
1 | تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 59 تا 64۔ یونس آیات 71 تا 73۔ ہود آیات 25 تا 48 ۔بنی اسرائیل آیت 3۔ الانبیاء، آیات 76۔ 77 |
Surah 23 : Ayat 26
قَالَ رَبِّ ٱنصُرْنِى بِمَا كَذَّبُونِ
نوحؑ نے کہا 1"پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما"
1 | یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : فَدَعَارَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَانْتَصِرْ، ’’ پس نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تو ان سے بدلہ لے ‘‘ (القمر آیت 10) اور سورہ نوح نوح میں فرمایا : قَالَ نُوْ حٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَ الْاَ رْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ہ اِنَّکَ اِنْ تَزَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ اعِبادَکَ وَلَا یَلِدُ وْ آ اِلَّا فَا جِراً کَفَّاراً۔ ’’ اور نوح نے کہا‘‘ اے میرے پرو دگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تونے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بد کار منکرین حق ہی پیدا ہوں گے ‘‘(آیت 26) |
Surah 26 : Ayat 105
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ ٱلْمُرْسَلِينَ
قوم نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا1
1 | اگر چہ انہوں نے ایک ہی رسول کو جھٹلایا تھا، لیکن چونکہ رسول کی تکذیب در حقیقت اس دعوت اور پیغام کی تکذیب ہے جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ، اس لیے جو شخص یا گروہ کسی ایک رسول کا بھی انکار کر دے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام رسولوں کا منکر ہے۔ یہ ایک بڑی اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ حتّیٰ کہ وہ لوگ بھی کافر ٹھیرائے گۓ ہیں جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں ، باقی تمام انبیاء کو مانتے ہوں۔ اس لیے کہ جو شخص اصل پیغام رسالت کا ماننے والا ہے وہ تو لازماً ہر رسول کو مانے گا۔ مگر جو شخص کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے رسولوں کو مانتا بھی ہے تو کسی عصبیت یا تقلید آبائی کی بنا پر مانتا ہے، نفس پیغام رسالت کو نہیں مانتا، ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہی حق ایک پیش کرے تو یہ اسے مان لے اور وہی دوسرا پیش کرے تو یہ اس کا انکار کر دے |