Ayats Found (4)
Surah 7 : Ayat 179
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآۚ أُوْلَـٰٓئِكَ كَٱلْأَنْعَـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ
اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے1 ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو ئے گئے ہیں2
2 | اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکا ر و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اُس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے بُرے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جارہا ہے |
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اُن کو پیدا ہی اس غرض کے لیے کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں اور ان کو وجود میں لاتے وقت ہی یہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں دوزخ کا ایندھن بنانا ہے، بلکہ اس کا صھیح مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل، دماغ، آنکھیں اور کان دے کر ، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے وہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں انتہائی افسوس اور حسرت کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماں کے متعدد جوان جوان بیٹے لڑائی میں جاکر لقمہ اجل ہوگئے ہوں تو وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ میں نے انہیں اس لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا کہ لوہے اور آگ کے کھیل میں ختم ہوجائیں۔ اس قول سے اس کا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ واقعی اس کے پالنے پوسنے کی غرض یہی تھی، بلکہ اس حسرت بھرے انداز میں دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ میں تو اتنی محنتوں سے اپنا خونِ جگر پلاپلا کر ان بچوں کو پالا تھا، مگر خدا ان لڑنے والے فسادیوں سے سمجھے کہ میری محنت اور قربانی کے ثمرات یوں خاک میں مل کر رہے |
Surah 11 : Ayat 118
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ ٱلنَّاسَ أُمَّةً وَٲحِدَةًۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے
Surah 11 : Ayat 119
إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَۚ وَلِذَٲلِكَ خَلَقَهُمْۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اِسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا1 اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان، سب سے بھر دوں گا
1 | یہ اس شبہہ کاجواب ہے جوبالعموم ایسے مواقع پرتقدیم کے نام سے پیش کیاجاتا ہے۔ اوپراقوام گرشتہ کی تباہی کاجوسبب بیان کیاگیا ہےاس پریہ اعتراض کیاجاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کاموجود نہ رہنایا بہت کم پایا جانا بھی توآخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کاالزام ان قوموں پرکیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیے؟اس کے جواب میںیہ حقیقت حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کےبارے میں یہ ہےہی نہیں کہ حیوانات اورنباتات اورایسی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کوبھ جبلی طور پرایک لگے بندھے راستے کاپابند بنادیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی توپھر دعوت ایمان، بعثت انبیاء اورتنزیل کتب کی ضرورت ہی کیاتھی، سارے انسان مسلم ومومن ہی پیدا ہوتے اورکفرو عصیان کاسرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نےانسان کے بارے میںجومشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کوانتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے،اسے اپنی پشندکے مطابق مختلف راہوں پرچلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اوردوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اورپھر ہرانسان اورہرانسانی گروہ کوموقع دیاجائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کوبھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہرایک جوکچھ بھی پائے اپنی وکسب کےنتیجہ میں پائے پس جب وہ اسکیم جس کےتحت انسان پیداکیا گیا ہےہ، آزادی انتخاب اوراختیاری کفروایمان کےاصول پرمبنی ہے تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود توبڑھنا چاہے بدی کی راہ پراوراللہ زبردستی اس کوخیر پرموڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے توانسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جوایک سے ایک بڑھ کر بدکار اورظالم اورفاسق آدمی ڈھال ڈھال کرنکالیں، اوراللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کردے جواس کےبگڑے پوئے سانچوں کوٹھیک کردیں۔اس قسم کی مداخلت خدا کےدستور میںنہیں ہے۔ نیک ہوں یابد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کوخود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کوپسند کرے گی ، جس میں سے کوئی معتد بہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جونیکی کاجھنڈا بلند کرے، اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںاس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خداکو کیاپڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تواس کواس انجام کی طرف دھکیل دے گا جواس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے توصرف وہ جس میں بہت سےافراد ایسے نکلیں جوخود دعوت خیر کولبیک کہنے والے ہوں اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںیہ صلاحیت باقی رہنے دی ہوکہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوالانعام ،حاشیہ ۲۴)۔ |
Surah 32 : Ayat 13
وَلَوْ شِئْنَا لَأَتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَٮٰهَا وَلَـٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
(جواب میں ارشاد ہو گا) 1"اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا2
2 | اشارہ ہے اُس قول کی طرف جواللہ تعالٰی نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اورنسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔ جواب میں اللہ تعالٰی نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھردوں گا تجھ سے اوراُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اوران شیاطین کے پیروانسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔ |
1 | یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے توآغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اورحواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں، ہم اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پراتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اوراغراض کی بندگی سے آزاد ہو کراس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کرلو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲ ۔ ۶۰۳ ۔۶۰۴۔جلد دوّم ص، ۲۷۶ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)۔ |