Ayats Found (6)
Surah 8 : Ayat 48
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَعْمَـٰلَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ ٱلْيَوْمَ مِنَ ٱلنَّاسِ وَإِنِّى جَارٌ لَّكُمْۖ فَلَمَّا تَرَآءَتِ ٱلْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّى بَرِىٓءٌ مِّنكُمْ إِنِّىٓ أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّىٓ أَخَافُ ٱللَّهَۚ وَٱللَّهُ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ اُلٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے
Surah 59 : Ayat 16
كَمَثَلِ ٱلشَّيْطَـٰنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَـٰنِ ٱكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّى بَرِىٓءٌ مِّنكَ إِنِّىٓ أَخَافُ ٱللَّهَ رَبَّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اِن کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے1
1 | یعنی یہ منافقین بنی نضیر کے ساتھ وہی معاملہ کر رہے ہیں جو شیطان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ آج یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے لڑ جاؤ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ مگر جب وہ واقعی لڑ جائیں گے تو یہ دامن جھاڑ کر اپنے سارے سعدوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گے کہ ان پر کیا گزری ہے۔ ایسا ہی معاملہ شیطان ہر کافر سے کرتا ہے، اور ایسا ہی معاملہ اس نے کفار قریش کے ساتھ جنگ بدر میں کیا تھا، جس کا ذکر سورہ انفال، آیت 48 میں آیا ہے۔پہلے تو وہ ان کو بڑھاوے دے کر بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر لے آیا اور اس نے ان سے کہا کہ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَالنَّا سِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ۔ (آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہاری پشت پر ہوں )، مگر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹا پھر گیا اور کہنے لگا کہ اِنِّیْ بَرِئٓءٌ مِّنْکُمْ، اِنِّیْ اَریٰ مَا لَا تَرَوْنُ، اِنِّیْ اَخَافُ اللہ (میں تم سے بری الذمہ ہوں، مجھے وہ کچھ نظر آ رہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا، مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔) |
Surah 19 : Ayat 56
وَٱذْكُرْ فِى ٱلْكِتَـٰبِ إِدْرِيسَۚ إِنَّهُۥ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا
Surah 19 : Ayat 58
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مِن ذُرِّيَّةِ ءَادَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَٲهِيمَ وَإِسْرَٲٓءِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَٱجْتَبَيْنَآۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُ ٱلرَّحْمَـٰنِ خَرُّواْ سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، ا ور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے
Surah 21 : Ayat 85
وَإِسْمَـٰعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا ٱلْكِفْلِۖ كُلٌّ مِّنَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ 1اور ذوالکفلؑ 2کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے
2 | ذولکفل کا لفظی ترجمہ ہے ’’صاحب نصیب‘‘ ، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب آخرت کے لحاظ سے صاحب نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے ۔ قرآن مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ، نام نہیں لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں ، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، اور کس زمانے میں گزرے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریاؑ کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے ۔) کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت الیاس ہیں ، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے ، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں ، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورہ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے ور ذولکفل کا الگ) ، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوۓ اور ان کا اصلی نام بِشْر تھا ۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ’’ یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حزقیال (حِزْقیِ اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (597 ق۔م ) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے ‘‘۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں ۔ موجودہ زمانے کے مفسرین نے اپنا میلان حزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے ۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابل ترجیح ہو سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے ۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل اَبیب تھا۔ اسی مقام پر 594 ق۔ م ، میں حضرت حزقی اہل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر 30 سال تھی، اور مسلسل 22 سال ایک طرف گرفتار بال اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونگا نے کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اس کار عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال ان کی بیوی ، جنہیں وہ خود ’’ منظور نظر ‘‘ کہتے ہیں ، انتقال کر جاتی ہیں ، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ اور یہ اپنا دکھڑا چھوڑ کر اپنی ملت کو خد کے اس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سرپر تلا کھڑا تھا (باب 24 ۔ آیات 15 ۔ 27 )۔ بائیبل کا صحیفہ حزقی ایل ان صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہو گا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورہ مریم، حاشیہ 33 |
Surah 21 : Ayat 86
وَأَدْخَلْنَـٰهُمْ فِى رَحْمَتِنَآۖ إِنَّهُم مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے