Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 24
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُۖ أُعِدَّتْ لِلْكَـٰفِرِينَ
تو یہ کام کر کے دکھاؤ1، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر2، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے
2 | اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے، بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے |
1 | اِس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اِس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھا ؤ ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جارہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ یونس ؑ ، آیت ۴۸ و سُورہٴ ہُود ، آیت ۱۳ ۔ بنی اسرائیل ، آیت ۸۸۔ الطور، آیت ۲۳۔۳۴) |
Surah 3 : Ayat 10
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَن تُغْنِىَ عَنْهُمْ أَمْوَٲلُهُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُهُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔاۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمْ وَقُودُ ٱلنَّارِ
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے1، انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا، نہ اولاد وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے
1 | کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کرلینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رُو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صُورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اُس کے اقتدارِ اعلٰی کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اُس کے احکام اور اُس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسندیا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں اُن کو، یا اُن میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نا فرمانی ہی پر رکھے۔ یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اُس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اُس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اُس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی ، نمک حرامی، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے |
Surah 21 : Ayat 98
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَٲرِدُونَ
بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے1
1 | روایات میں آیا ہے کہ اس آیت پر عبداللہ بن الذَّ بَعْریٰ نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں ، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے ، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : نعم، کل من احب ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہٗ ، ’’ ہاں ، ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجاۓ اس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلق خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ ان ہی کو معبود بنا بیٹھے ، یا جو غریب اس بات س بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ۔ اسی طرف وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا ، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی معبود وہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو ان اشرار نے بظاہر معبود بنوا یا تھا ۔ شیطان بھی اسی ذیل میں آتا ہے ، کیونکہ اس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے ، اصل معبود وہ نہیں بلکہ خود ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ پٹھے اور لکڑی کے بتوں اور دوسرے سامان پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جاۓ گا، تاکہ وہاں پر آتش جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے وہ شفاعت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ ان پر الٹے عذاب کی شدت کے موجب بنے ہوئے ہیں |
Surah 21 : Ayat 99
لَوْ كَانَ هَـٰٓؤُلَآءِ ءَالِهَةً مَّا وَرَدُوهَاۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے"
Surah 66 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قُوٓاْ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَـٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے1 جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں2
2 | یعنی ان کو جو سزا بھی کسی مجرم پر نافذ کرنے کاحکم دیا جائے گا اسے جوں توں نافذ کریں گے اور ذرا رحم نہ کھائیں گے |
1 | یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خداکے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کوصرف یہی فکر نہیں ہو نی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہوتی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے ا ور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے‘‘۔ جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعود ؓ ،ابن عباسؓ ،مجاہد ؒ،امام میں الباقرؒ اور سدی کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے |
Surah 72 : Ayat 15
وَأَمَّا ٱلْقَـٰسِطُونَ فَكَانُواْ لِجَهَنَّمَ حَطَبًا
اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں1"
1 | سوال کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی رُو سے جن تو خود آتشیں مخلوق ہیں۔ پھر جہنم کی آگ سے ان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے تو آدمی بھی مٹی سے بنا ہے۔ پھر اگر اسے مٹی کا ڈھیلا کھینچ مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں لگتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں سے بنا ہے، مگر جب ان سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود میں آ جاتا ہے تو وہ ان مادوں سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں سے بنی ہوئی دوسری چیزیں اس کے لیے اذیت کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے اعتیار سے آتشیں مخلوق ہیں، لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحب احساس مخلوق وجود میں آ جاتی ہے تو وہی آگ اس کے لیے تکلیف کی موجب بن جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، الرحمن ، حاشیہ 15) |