Ayats Found (3)
Surah 25 : Ayat 12
إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانِۭ بَعِيدٍ سَمِعُواْ لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا
وہ جب دور سے اِن کو دیکھے گی1 تو یہ اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے
1 | آگ کا کسی کو دیکھنا ممکن ہے کہ استعارے کے طور پر ہو، جیسے ہم کہتے ہیں ، وہ جامع مسجد کے مینار تم کو دیکھ رہے ہیں ، اور ممکن ہے ، حقیقی معنوں میں ہو، یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہ ہو بلکہ دیکھ بھال کر جلانے والی ہو |
Surah 67 : Ayat 7
إِذَآ أُلْقُواْ فِيهَا سَمِعُواْ لَهَا شَهِيقًا وَهِىَ تَفُورُ
جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اسکے دھاڑنے کی ہولناک آواز سنیں1 گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی
1 | اصل میں لفظ شھیق استعمال ہوا ہے۔ جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنم کی آواز ہو گی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہو گی جہاں ان لوگوں سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورہ ہود کی آیت 106 سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ ’’ہانپیں گے او پھنکارے ماریں گے‘‘۔ اور پہلے مفہوم کی تائید سورۃ فرقان آیت 12 سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ د وزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہو گا اور جہنمیوں کا بھی |
Surah 67 : Ayat 8
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ ٱلْغَيْظِۖ كُلَّمَآ أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ
شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے 1"کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟"
1 | اس سوال کی اصل نوعیت سوال کی نہیں ہو گی کہ جہنم کے کارندے ان لوگوں سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ ان کے پاس اللہ تعالٰٰی کی طرف سے کوئی خبردار کرنے والا آیا تھا یا نہیں، بلکہ اس سے مقصود ان کو اس بات کا قائل کرنا ہو گا کہ انہیں جہنم میں ڈال کر ان کے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس لیے وہ خود ان کی زبان سے یہ اقرار کرانا چاہیں گے کہ اللہ تعالٰٰی نے ان کو بے خبر نہیں رکھا تھا، ان کے پاس انبیاء بھیجے تھے، ان کو بتا دیا تھاکہ حقیقت کیا ہے اور راہ راست کونسی ہے، اور ان کو متنبہ کر دیا تھا کہ اس راہ راست کے خلاف چلنے کا نتیجہ اسی جہنم کا ایندھن بننا ہو گا جس میں اب وہ جھونکے گئے ہیں، مگر انہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی لہذا اب جو سزا انہیں دی جا رہی ہے وہ فی الواقع اس کے مستحق ہیں۔ یہ بات قرآن مجید میں بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے جس امتحان کے لیے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے وہ اس طرح نہیں لیا جا رہا ہے کہ اسے بالکل بے خبر رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہو کہ وہ خود راہ راست پاتا ہے یا نہیں، بلکہ اسے راہ راست بتانے کا جو معقول ترین انتظام ممکن تھا وہ اللہ پوری طرح کر دیا ہے، اور وہ یہی انتظام ہے کہ انبیاء بھیجے گئے ہیں اور کتابیں نازل کی گئیں ہیں۔ اب انسان کا سارا امتحان اس امر میں ہے کہ وہ انبیاء علیم السلام اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو مان کر سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے یا ان سے منہ موڑ کر خود اپنی خواہشات اور تخیلات کے پیچھے چلتا ہے۔ اس طرح نبوت درحقیقت اللہ تعالٰی کی وہ حجت ہے جو اس نے انسان پر قائم کر دی ہے، اور اسی کے ماننے یا نہ ماننے پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ انبیاء کے آنے کے بعد کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ ہم حقیقت سے آگاہ نہ تھے، ہمیں اندھیرے میں رکھ کر ہم کو اتنے بڑے امتحان میں ڈال دیا گیا، اور اب ہمیں بے قصور سزا دی جا رہی ہے۔ اس مضمون کو اتنی بار اتنے مختلف طریقوں سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں:تفہیم القرآن، جلد ا ول، البقرہ، آیت 213، حاشیہ 230، النساء آیات41۔42، حاشیہ 64۔ آیت 165، حاشیہ 208۔ الانعام، آیات 130۔131، 98 تا 100 جلد دوم، بنی اسرائیل، آیت 15، حاشیہ 17۔ جلد سوم طٰہٰ، آیت 134۔ القصص، آیت 47، حاشیہ 66، آیت 59، حاشیہ 83۔ آیت 65۔ جلد چہارم، فاطر، آیت 37، المومن ، آیت50 حاشیہ 66 |