Ayats Found (4)
Surah 15 : Ayat 17
وَحَفِظْنَـٰهَا مِن كُلِّ شَيْطَـٰنٍ رَّجِيمٍ
اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا1
1 | یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اُسی طرح شیاطینِ جِنّ بھی اِسی خطّے میں مقید ہیں، عالم ِ بالا تک اُن کی رسائی نہیں ہے۔ اِس سے دراصل لوگوں کی اُس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریّت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے ، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہر گز نہیں دی گئی ہے |
Surah 15 : Ayat 18
إِلَّا مَنِ ٱسْتَرَقَ ٱلسَّمْعَ فَأَتْبَعَهُۥ شِهَابٌ مُّبِينٌ
کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پا سکتا، الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے1 اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے2
2 | شہاب ِ مبین“ کے لغوی معنی ”شعلۂ روشن“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہابِ ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی”تاریکی کو چھید نے والا شعلہ“۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحًا شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلاً کائناتی شعاعیں یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصب شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔ اِس سے کچھ اُن”محفوظ قلعوں“ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی فضا میں مختلف خِطّوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خِطّے کو دوسرے خِطّوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہاب ِ ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں(Meteorites ) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ۶۴۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گِر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳۶-۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس دان اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کی مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو اِن ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے”بروج“ (محفوظ قلعوں) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے |
1 | یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن کی مدد سے بہت سے کاہن، جوگی ، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں ، اُن کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں۔ وہ کچھ سُن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ، کیونکہ اُن کی ساخت انسانوں ک بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے، لیکن فی الواقع اُن کے پلّے کچھ پڑتا نہیں ہے |
Surah 37 : Ayat 6
إِنَّا زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِزِينَةٍ ٱلْكَوَاكِبِ
ہم نے آسمان1 دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے
1 | آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے،جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں۔اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں،اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے،وہ سب دور کے آسمان ہیں۔اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ’’سماء‘‘ کسی متعیّن چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ |
Surah 37 : Ayat 7
وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَـٰنٍ مَّارِدٍ
اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے
1 | یعنی عالَم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے،بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے،اور اس کے مختلف خطّے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان حدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے۔کائنات کے ہر تارے اور ہر سیّارے کا اپنا ایک دائرہ اور کُرہ(Sphere)ہے جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں ہے۔ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلائے محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔لیکن حقیقت میں اس خلا کے اندر بے حد و حساب خطے ایسی مضبوط سرحدوں سے محفوظ کیے گئے ہیں جن کے مقابلے میں آہنی دیواروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اس کا کچھ اندازہ ان گوناں گوں مشکلات سے کیا جا سکتا ہے جو زمین کے رہنے والے انسان کو اپنے قریب ترین ہمسائے،چاند تک پہنچنے میں پیش آرہی ہیں ۔ایسی ہی مشکلات زمین کی دوسری مخلوق،یعنی جنوں کے لیے بھی عالمِ بالا کی طرف صعود کرنے میں مانع ہیں۔ |