Ayats Found (19)
Surah 2 : Ayat 206
وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتْهُ ٱلْعِزَّةُ بِٱلْإِثْمِۚ فَحَسْبُهُۥ جَهَنَّمُۚ وَلَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ
اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے
Surah 3 : Ayat 12
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَۚ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ
پس اے محمدؐ! جن لوگوں نے تمہاری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اُن سے کہہ دو کہ قریب ہے وہ وقت، جب تم مغلوب ہو جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور جہنم بڑا ہی برا ٹھکانا ہے
Surah 3 : Ayat 197
مَتَـٰعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَٮٰهُمْ جَهَنَّمُۚ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ
یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے
Surah 13 : Ayat 18
لِلَّذِينَ ٱسْتَجَابُواْ لِرَبِّهِمُ ٱلْحُسْنَىٰۚ وَٱلَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُۥ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُۥ مَعَهُۥ لَٱفْتَدَوْاْ بِهِۦٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ سُوٓءُ ٱلْحِسَابِ وَمَأْوَٮٰهُمْ جَهَنَّمُۖ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی ہے اُن کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیا ر ہو جائیں گے1 یہ وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے، بہت ہی برا ٹھکانا
1 | یعنی اُس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے |
Surah 38 : Ayat 56
جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ
جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے، بہت ہی بری قیام گاہ
Surah 2 : Ayat 126
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا ءَامِنًا وَٱرْزُقْ أَهْلَهُۥ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ مَنْ ءَامَنَ مِنْهُم بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُۥ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُۥٓ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلنَّارِۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: "اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے2" جواب میں اس کے رب نے فرمایا: "اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے"
2 | حضرت ابراہیم ؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے ، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیم ؑ رزق کے لیے دُعا کر نے لگے ، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر اُنہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزق ِ دُنیا دُوسری چیز۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی، مگر رزقِ دُنیا مومن و کافر سب کو دیا جائےگا۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دُنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے |
Surah 9 : Ayat 73
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَـٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْۚ وَمَأْوَٮٰهُمْ جَهَنَّمُۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اے نبیؐ، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ1 آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے
1 | اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا ، اور اسکے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جولوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا ، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے، سمجھنے اور دین ِ حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی ۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لیے حکم ہو اکہ کفار کے ساتھ ساتھ اب اِن منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے ، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤکیا جائے۔ منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا ، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرزِ عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے ، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کےلیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں۔ پھر اگر اُن میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ اک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی ۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں ، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نفاق کا حال طاعون کاسا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے ۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانےکے لیے اخلاص ، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہار ِ ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ من و قر صاحب بد عۃ فقد اعان علیٰ ھد م الاسلام ۔” جس شخص نے کسی صاحبِ بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمار ت ڈھانے میں مدد گار ہوا“ |
Surah 22 : Ayat 72
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُنَا بَيِّنَـٰتٍ تَعْرِفُ فِى وُجُوهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلْمُنكَرَۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِٱلَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِنَاۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٲلِكُمُۗ ٱلنَّارُ وَعَدَهَا ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ اُن لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں ان سے کہو 1"میں بتاؤں تمہیں کہ اس سے بدتر چیز کیا ہے؟ آگ، اللہ نے اُسی کا وعدہ اُن لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبول حق سے انکار کریں، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے"
1 | یعنی کلام الہٰی کی آیات سن کر جو غصے کی جلن تم کو لاحق ہوتی ہے اس سے شدید تر چیز ، یا یہ کہ ان آیات کو سنانے والوں کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ برائی تم کرسکتے ہو اس سے زیادہ بد تر چیز ، جس سے تمہیں سابقہ پیش آنے والا ہے |
Surah 64 : Ayat 10
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ خَـٰلِدِينَ فِيهَاۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے1 وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے
1 | یہ الفاظ خود کفر کے مفہوم کو واضح کر دیتے ہیں۔ اللہ کی آیا ت کو اللہ کی آیات نہ ماننا،اور ان حقائق کو تسلیم نہ کرنا جو ان آیات میں بیان کیے گۓ ہیں، اور ان احکام کی پیروی سے انکار کر دینا جو ان میں ارشاد ہوۓ ہیں، یہی کفر ہے اور اس کے نتائج وہ ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں |
Surah 67 : Ayat 6
وَلِلَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر1 کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے
1 | یعنی انسان ہوں، یا شیطان، جن لوگوں نے بھی اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کا یہ انجام ہے (رب سے کفر کرنے کے مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 121، النساء، حاشیہ 178، جلد سوم، الکہف، حاشیہ 39، جلد چہارم، المومن، حاشیہ، 3 |