Ayats Found (6)
Surah 12 : Ayat 2
إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ قُرْءَٲنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن1 بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو2
2 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہلِ عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدّعا یہ کہنا ہے کہ ”اے اہلِ عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جارہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کرسکتے ہوکہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو میں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“۔ بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہلِ عرب کے لیے ہے، غیر اہلِ عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑدیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اُس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متاثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کررہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا |
1 | قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی میں”پڑھنا“۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہٴ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کی بجائے ”بہادری“کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“(پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے |
Surah 19 : Ayat 97
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَـٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ ٱلْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِۦ قَوْمًا لُّدًّا
پس اے محمدؐ، اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو
Surah 39 : Ayat 28
قُرْءَانًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِى عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے1، جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے2، تاکہ یہ برے انجام سے بچیں
2 | یعنی اس میں اینچ پینچ کی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ عام آدمی کے لیے اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے۔ بلکہ صاف صاف سیدھی بات کہی گئی ہے جس سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کتاب کس چیز کو غلط کہتی ہے اور کیوں،کس چیز کو صحیح کہتی ہے اور کس بنا پر،کیا منوانا چاہتی ہے اور کس چیز کا انکار کرانا چاہتی ہے،کن کاموں کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے۔ |
1 | یعنی یہ کسی غیر زبان میں نہیں آیا ہے کہ مکے اور عرب کے لوگ اسے سمجھنے کے لیے کسی مترجم یا شارح کے محتاج ہوں،بلکہ یہ ان کی اپنی زبان میں ہے جسے یہ براہ راست خود سمجھ سکتے ہیں۔ |
Surah 32 : Ayat 3
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۚ بَلْ هُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا یہ لوگ کہتے ہیں1 کہ اس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے2؟ نہیں، بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے3 تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں4
4 | یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالٰی نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔ واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آجاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہوگی؟ انہیں معلوم ہی کب تھا کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل، ورقہ بن نَو فَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵) |
3 | جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ،کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اسے کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔ |
2 | یہ محض سوال واستفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کرکے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کردیا ہے؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اوراس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کرکیا رائے قائم کریں گے؟ |
1 | اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔ |
Surah 43 : Ayat 3
إِنَّا جَعَلْنَـٰهُ قُرْءَٲنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اِسے سمجھو1
1 | قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ’’ہم‘‘ ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’’کتاب مبین‘‘ ہے ۔ اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے ، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان ، اس کا ادب ، اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوال کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ’’ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو،‘‘ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے ، اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی ۔ یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کر سکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جب کہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے ۔ لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کسے کر سکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح ہے ۔ اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون ، دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے ۔ خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہو سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے ۔ عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجاۓ کلام محمدؐ قرار دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے ۔ (ان دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن ، جلد چہارم، سورہ حٰم السجدہ، آیت 44 مع حاشیہ نمبر 54 ملاحظہ فرمائیں) |
Surah 59 : Ayat 21
لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُۥ خَـٰشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِۚ وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَـٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے1 یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں
1 | اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 120) |