Ayats Found (4)
Surah 15 : Ayat 16
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّـٰهَا لِلنَّـٰظِرِينَ
یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے1، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا2
2 | یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح ساراعالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس ناپیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈا ر بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم ِ اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال د ر جے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایکل دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْ ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شِیْ ءٍ خَلَقَہٗ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خو ب ہی بنائی“ |
1 | بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحًا اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کیطرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں |
Surah 15 : Ayat 17
وَحَفِظْنَـٰهَا مِن كُلِّ شَيْطَـٰنٍ رَّجِيمٍ
اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا1
1 | یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اُسی طرح شیاطینِ جِنّ بھی اِسی خطّے میں مقید ہیں، عالم ِ بالا تک اُن کی رسائی نہیں ہے۔ اِس سے دراصل لوگوں کی اُس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریّت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے ، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہر گز نہیں دی گئی ہے |
Surah 37 : Ayat 8
لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى ٱلْمَلَإِ ٱلْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ
یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے، ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں
Surah 37 : Ayat 10
إِلَّا مَنْ خَطِفَ ٱلْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُۥ شِهَابٌ ثَاقِبٌ
تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے1
1 | اس مضمون کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس وقت عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے پیشن گوئیاں کر رہے تھے، غیب کی خبریں دے دہے تھے، گم شدہ چیزوں کے پتے بتا رہے تھے، اور لوگ اپنے اگلے پچھلے حال دریافت کرنے کے لیے ان سے رجوع کر رہے تھے۔ ان کاہنوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جن اور شیاطین ان کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لا لا کر دیتے ہیں۔ اس ماحول میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ نے قرآن مجید کی آیات سنانی شروع کیں جن میں پچھلی تاریخ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی خبریں دی گئی تھیں، اور ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایک فرشتہ یہ آیات میرے پاس لاتا ہے، تو آپ کے مخالفین نے فوراً آپ کے اوپر کاہن کی پھبتی کس دی اور لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا تعلق بھی دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے ہے جو عالم بالا سے کچھ سن گن لے کر ان کے پاس آجاتا ہے اور یہ اسے وحی الہٰی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔اس الزام کے جواب میں اللہ تعالٰی یہ حقیقت ارشاد فرما رہا ہے کہ شیاطین کی تو رسائی ہی عالم بالا تک نہیں ہو سکتی۔وہ اس پر قادر نہیں ہیں کہ ملاء اعلیٰ (یعنی گروہ ملائکہ) کی باتیں سن سکیں اور لا کر کسی کو خبریں دے سکیں۔اور اگر اتفاقاً کوئی ذرا سی بھنک کسی شیطان کے کان میں پڑ جاتی ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے لے کر نیچے آئے،ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ سے کائنات کا جو عظیم الشان نظام چل رہا ہے وہ شیاطین کی در اندازی سے پوری طرح محفوظ ہے۔اس میں دخل دینا تو درکنار، اس کی معلومات حاصل کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ 500 تا 502)۔ |