Ayats Found (5)
Surah 4 : Ayat 123
لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَآ أَمَانِىِّ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِۗ مَن يَعْمَلْ سُوٓءًا يُجْزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدْ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا
Surah 39 : Ayat 51
فَأَصَابَهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا كَسَبُواْۚ وَٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْ هَـٰٓؤُلَآءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا كَسَبُواْ وَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ
پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے، اور اِن لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں
Surah 41 : Ayat 27
فَلَنُذِيقَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ ٱلَّذِى كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اِن کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ اِنہیں دیں گے
Surah 53 : Ayat 31
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَسَـٰٓـــُٔواْ بِمَا عَمِلُواْ وَيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَحْسَنُواْ بِٱلْحُسْنَى
اور زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے1 تاکہ2 اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اُن لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے
2 | یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا۔ گویا جملہ معترضہ کو چھوڑ کر سلسلہ عبارت یوں ہے : ’’اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے |
1 | بالفاظ دیگر کسی آدمی کے گمراہ یا بر سر ہدایت ہونے کا فیصلہ نہ اس دنیا میں ہونا ہے نہ اس کا فیصلہ دنیا کے لوگوں کی راۓ پر چھوڑ گیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے ، اور اسی کو یہ معلوم ہے کہ دنیا کے لوگ جن مختلف راہوں پر چل رہے ہیں ان میں سے ہدایت کی راہ کون سی ہے اور ضلالت کی راہ کون سی۔ لہٰذا تم اس بات کی کوئی پروا نہ کرو کہ یہ مشرکین عرب اور یہ کفار مکہ تم کو بہکا اور بھٹکا ہوا آدمی قرار دے رہے ہیں اور اپنی جاہلیت ہی کو حق اور ہدایت سمجھ رہے ہیں۔ یہ اگر اپنے اسی زعم باطل میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو انہیں مگن رہنے دو۔ ان سے بحث و تکرار میں وقت ضائع کرنے اور سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں |
Surah 99 : Ayat 8
وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُۥ
اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا1
1 | اس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہو گی جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو، اسے وہ بہرحال دیکھ لے گا۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزاو سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سی چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا۔ کیونکہ اول تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک برے عمل کی سزا، اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی۔ دوسرے اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بد ترین کافر و ظالم اور بد کار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں، اور عقل بھی اسے انہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے۔ عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں۔ اور اس کی ایک ایک خدمت کا جرو انعام دینے کے ساتھ اس کے ا یک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں۔ اسی طرح یہ بھی عقلاً ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بے شمار احسانات ہوں، آپ سے غداری اور بے وفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو ن ظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی، خواہ وہ کسی وقت پانی لا کر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو، الگ جزا دیں۔ اب رہے قرآن و حدیث ، تو وہ وضاحت کے ساتھ م ومن، منافق، کافر و مومن صالح ، مومنِ خطا کار، مومن ظالم و فاسق، محض کافر، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ا یک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے: اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال (یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے) ضائع کر دیے گئے ، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پا سکیں گے۔ ان کا کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147۔ التوبہ 17۔67 تا 69۔ ہود 14۔16۔ ابراہیم 18۔ الکہف 104۔105۔ النور 39۔ الفرقان 23۔ الاحزاب 19۔ الزمر 65۔ الاحقاف 20۔ دوم یہ کہ بدی کی سزا اتنی ہی د ی جائے گی جتنی بدی ہے، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا ا جر اس سے 10 گناہ ہے، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا ا جر بڑھا کر دے۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261۔ الانعام 160۔ یونس 62۔67۔ النور 38۔ القصص 84۔ سبا 37۔ المومن 40)۔ سوم یہ کہ مومن اگر بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ النساء 31۔ الشوریٰ 37۔ النجم 32)۔ چہارم یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اس کی برائیوں سے در گزر کیا جائے گا اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا، العنکبوت7۔ الزمر 35۔ الاحقاف 16۔ الانشقاق 8۔ احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کر دیتی ہیں۔ اس سے پہلے ہم سورہ انشقاق کی تفسیر میں وہ احادیث نقل کر چکے ہیں جو قیامت کے روز ہلکے حساب اور سخت حساب فہمی کی تشریح کرتے ہوئے حضورؐ نے فرمائی ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد ششم، الانشقاق، حاشیہ 6)۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ا بو بکر صدیق رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس ذ رہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھو ں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی‘‘؟ حضورؐ نے فرمایا ’’اے ابو بکر دنیا م یں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انہیں اللہ آخرت میں تمہارے لیے محفوظ رکھ رہا ہے‘‘۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، بیہقی فی الشعب، ابن المنذر ، حاکم، ابن مردویہ، عبد بن حمید)۔ حضرت ابو ایوب انصاری سے بھی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے بارے میں میں ا رشاد فرمایا تھا کہ ’’تم میں سے جو شکل نیکی کرے گا اس کی جزاء آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا‘‘۔ (ابن مردویہ)۔ قتادہ نے حضرت انس کے حوالہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اللہ تعالی مومن پر ظلم نہیں کرتا۔ دنیا میں اس کی نیکیوں کے بدلے وہ رزق دیتا ہےاور آخرت میں ان کی جزا دے گا۔ رہا کافر، تو دنیا میں اس کی بھلائیوں کا بدلہ چکا دیا جاتا ہے، پھر جب قیامت ہوگی تو اس کے حساب میں کوئی نیکی نہ ہوگی‘‘۔ (ابن جریر)۔ مسروق حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ عبدال بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں صلہ رحمی، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا، مہمان نواز تھا، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا۔ کیا آخرت میں یہ اس کے لیے نافع ہو گا؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’ رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین ۔ ‘‘، ’’میرے پروردگار ، روز جزا میں میری خطا معاف کیجیو‘‘۔ (ابن جریر) اسی طرح کے جوابات رسول اللہ ﷺ نے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیے جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک کام کرتے تھے، مگر م رے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے۔ لیکن حضورؐ کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی، البتہ جہنم میں اس کے وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بد کار کافروں کو دی جائے گی۔ مثلاً حدیث میں آیا کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا (روح المعانی) تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے، یونہی نظر انداز کر دینے والی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے، کیونکہ ایسی بہت سی ن یکیاں مل کر اللہ تعالی کے حساب میں ا یک بہت بڑی نیکی قرار پا سکتی ہیں، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ا یک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعے سے ہو‘‘۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضورؐ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ’’کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو، خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو۔ یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل ‘‘۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا ’’اے مسلمان عورتو، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضورؐ فرماتے تھے ’’اے عائشہ ، ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی پرسش بھی ہونی ہے‘‘۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’خبردار، چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا، کیونکہ وہ سب آدمی پر جمع ہو جائیں گے یہاں تک اسے ہلاک کر دیں گے ‘‘۔ (گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء ، حاشیہ 53۔ جلد پنجم، النجم، حاشیہ 23) |