Ayats Found (2)
Surah 66 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكَۖ تَبْتَغِى مَرْضَاتَ أَزْوَٲجِكَۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے1؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو23؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
3 | یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہاس پر مواخذہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپؐ کی اس لغزش کو معاف کر دیا |
2 | اس سے معلوم ہوا کہ حضورؐ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ مقصد صرف حضورؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواجِِ نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضورؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیزکیاتھی جسے حضورؐ نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا۔ حضرت ماریہؓ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول ﷺ نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کوبھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق (Patriarch)کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامئہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نےاسلام قبول نہ کیا،مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا ’’مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے،لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں‘‘ (ابن سعد)۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں)مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسانؓ بن ثابت کی ملک یمین میں دےدیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضورؐ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے (الاستیعاب۔ الاصابہ)۔یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضورؐ کو بہت پسند آئی تھیں‘‘۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے مکان میں تشریف لے گئے اوروہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اس وقت حضرت ماریہؓآپ کے پاس وہاں آ گئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہؓ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضورؐ سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپؐ نے ان کو راضی کرنے کے لیےان سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا،اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا ً نقل ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ ’’حضورؐ کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے‘‘۔ دوسرا واقعہ بخاری ، مسلم ،ابو داؤد،نسائی اور دوسری متعدد کتبِ حدیث میں خود حضرت عائشہؓ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینبؓ بنت حجش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے،کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا،اورحضورؐ کو شیرینی بہت پسند تھی،اس لیے آپؐ ان کےہاں شہد کاشربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہؓ ،سودہؓ اور حضرت صفیہؓ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آ جاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضورؐ نہایت نفاست پسند ہیں اور آپؐ کواس سے سخت نفرت ہے کہ آپؐ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے۔اس لیے آپ کو حضرت زینبؓ کے ہاں ٹھہرنے سےروکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپؐ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپؐ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت ’’اب میں ہر گز اسے نہ پیونگا ،میں نے قسم کھا لی ہے‘‘۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں،وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباسؓ سے بورایت ابن المنذر ،ابن ابی حاتم،طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لااشربہ ’’خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا‘‘۔ اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سےاسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصےکو ناقابلِ اعتبار ٹھہرایا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ ’’ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہؓ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہؓ کوحرام کر لینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے‘‘۔ قاضی عیاض کہتے ہیں ’’صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہؓ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے‘‘۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں،اور یہی رائے امام نودی اورحافظ بدر الدین عینی کی ہے۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ ’’شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہؓ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا،اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے‘‘۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے |
1 | یہ دراصل استفہام نہیں ہے۔ بلکہ نا پسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے،بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالٰی کو ناپسند ہے۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کااختیار کسی کو بھی نہیں ہے،حتی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ اگرچہ حضورﷺنے اُس چیز کو نہ عقید ۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اُسے شرعاً حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اُس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا،لیکن چونکہ آپ کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی،اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالٰی نے آپ کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا |
Surah 66 : Ayat 2
قَدْ فَرَضَ ٱللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَـٰنِكُمْۚ وَٱللَّهُ مَوْلَـٰكُمْۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ
اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے1 اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے2
2 | یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کا متولی ہے۔ وہ زیادہ بہترجانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اس نےدیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خودمختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں رد و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اس کی اطاعت کرتے رہو۔ دوسری بات ارشاد فرماتے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں۔ جس چیز کوحلال کیا ہے علم حکمت کی بنا پرحلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے۔ یہ کوئی الل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھہرا دیا۔ لہذاجو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اورہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں |
1 | مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالٰی نے سورۃ مائدہ،آیت 89 میں مقرر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اس عہد کو توڑ دیں جو آپؐ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کو حرام کر لیا ہو، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کرو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اس نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے مسروق ،شعبی، ربیعہ اور ابو سلمہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اس صورت میں قسم ہے جبکہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کرنے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی، جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالٰی نے حضورؐ سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے اس پر آپ عمل کریں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ دوسری اشیاء مثلا کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے، کوئی کفارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہوکہ اس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے، تو وہ حرام نہ ہو گی، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفارہ یمین لازم آئے گا۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے (معنی المحتاج) ۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے(احکام القرآن لابن العربی) تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عائشہؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضر زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ عنہم کی ہے۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں یہ نقل ہوئی ہے کہ اذا حرم امراتہ فلیس بشیء (اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے)، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ کفارہ ہے، کیونکہ بخاری، مسلم، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفارہ ہے اور نسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفارہ لازم ہے‘‘ اور ابن جریر کی روایت میں ان عباس کے الفاظ یہ ہیں: ’’اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسےاللہ نے حلال کیا تو ان پر لازم ہے کہ اپنی قسموں کاکفارہ اداکریں‘‘۔ یہی رائے حسن بصری ،عطاء، طاؤس، سلیمان بن یسار، ابن جبیر اور قتادہ کی ہے، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے۔ امام ابو بکرحصاص کہتےہیں کہ ’’آیت لم تحرم ما احل اللہ لک کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے تحریم کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی تھی، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اسی تحریم کے معاملہ میں قسم ک اکفارہ واجب فرمایا‘‘۔ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ’’ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) نے تحریم کو اس صورت میں قسم قرار دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو۔ اگرکسی شخص نے بیوی کو حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آؤں گا، اس لیے وہ ایلاء کا مرتکب ہوا۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہاکہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے پہلے یہ فرمایا کہ آپ اس چیز کوکیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے،اور پھر فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکم شرعی میں قسم کا ہم معنی ہو گیا‘‘۔ اس مقام پر فائدہ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہاء کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کوا پنے لیے حرام کیا ہو، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مقاربت نہ کرے گا، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہوتومیرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیاجائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی توتین واقع ہوں گی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی، تودونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا ، تو اس کا اطلاق بیوی پر اس وقت تک ہو گا جب تک اس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتا جب تک قسم کا کفارہ ادنا نہ کر دے (بدائع الصنائع،ہدایہ، فتح القدیر،احکام القرآن للجصاص)۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظہارکی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہوجائے گی۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی، بائن کی نیت ہو تو بائن، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعمال کیجے ہوں تو اس سے کہاجائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لے۔ کیونکہ طلاق و ظہار، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے،اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقاً بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہوتویہ لغو ہے، اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے (مغنی المحتاج)۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیزکو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ ا سے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے، یا میرے لیے حرام ہے، یا میں تیرے لیے حرام ہوں، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے، ہر صورت میں یہ طلاق ہیں، الایہ کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو۔ اصبغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جوکچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے توجب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے،اس سے بیوی کی تحریم بھی لازم آ جائے گی۔ المدونہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سےتین ہی طلاقیں پڑیں گی، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہوتو پھر یہ تین طلاقیں ہو گی (حاشیۃ الدسوقی)۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالکؒ کے تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاق بائن ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہرحال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو توایک ہی طلاق پڑے گی۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگرآدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعین نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی‘‘۔ امام احمد بن حملؒ سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم، یا حلال کو مطلقاً اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظہار کی نیت ہو یا نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ صریح کنایہ ہے اور اس سےتین طلاق واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قسم ہے، الا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو، اور اس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب حنبلی میں مشہور ترین ہے (الانصاف) |