Ayats Found (3)
Surah 30 : Ayat 12
وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ يُبْلِسُ ٱلْمُجْرِمُونَ
اور جب وہ ساعت1 برپا ہو گی اس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے2
2 | اصل میں لفظ ابلاص استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بناپرکسی شخص کا گُم سُم ہوجانا،اُمید کے سارے راستے بند پاکرحیران و ششدررہ جانا،کوئی حجت نہ پاکردم بخود رہ جانا۔یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے توذہن کے سامنے اس کی یہ تصویرآتی ہے کہ ایک شخص عین حالتِ جُرم میں بھرے ہاتھوں(Red-handed) پکڑا گیاہے،نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے،نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کرکے بچ نکلنے کو توقع رکھتا ہے،اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران وپریشان کھڑا ہے۔اس مقام پریہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل،چوری،ڈاکےاوراسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں،بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے،آخرت کی جواب دہی کے منکریااس سےبے فکررہے ہیں،اور دنیا میں خداکےبجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتےرہے ہیں،خواہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتاہے۔مزید برآں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر،اس کے رسولوں پرایمان لاکر،آخرت کااقرار کرکےپھردانستہ اپنے رب کی نافرمانیاں کی ہیں اورآخروقت تک اپنی اس باغیانہ روش پرڈٹے رہے ہیں۔یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالمِ آخرت میں یکایک جی اٹھیں گےاوردیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دوسری زندگی پیش آگئی ہے جس کاانکار کرکے،یا جسے نظرانداز کرکےوہ دنیا میں کام کرتے رہےتھے،تو ان کے حواس باختہ ہو جائیں گےاوروہ کیفیت ان پرطاری ہوگی جس کا نقشہ یُبلِسُ المُجرِمُونَ کےالفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ |
1 | یعنی اللہ تعالٰی کی طرف پلٹنے اوراس کے حضور پیش ہونے کی ساعت۔ |
Surah 32 : Ayat 12
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) "اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے"
Surah 32 : Ayat 22
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَآۚ إِنَّا مِنَ ٱلْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ
اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے1 ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے
1 | ’’رب کی آیات‘‘ یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آجاتی ہیں۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں: ۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کرآسمان تک ہر چیز میں اورکائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔ ۲۔وہ نشانیاں جوانسان کی اپنی پیدائش اوراس کی ساخت اوراس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔ ۳۔وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اسکے لاشعور میں، اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں۔ ۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔ ۵۔وہ نشانیاں جو انسان پرآفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔ ۶۔ اوران سب کے بعد وہ آیات جواللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔ یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت واطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختاراورغیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیراسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کراور خود مختاری کی روش سے بازآجا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے، اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔ |