Ayats Found (11)
Surah 6 : Ayat 51
وَأَنذِرْ بِهِ ٱلَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوٓاْ إِلَىٰ رَبِّهِمْۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِۦ وَلِىٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اے محمدؐ! تم اس (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں1
1 | مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ایسے مدہوش ہیں کہ انھیں نہ موت کی فکر ہے نہ یہ خیال ہے کہ کبھی ہمیں اپنے خدا کو بھی منہ دکھانا ہے، ان پر تو یہ نصیحت ہر گز کار گر نہ ہوگی۔ اور اسی طرح ان لوگوں پر بھی اس کا کچھ اثر نہ ہوگا جو اس بے بُنیاد بھروسے پر جی رہے ہیں کہ دُنیا میں ہم جو چاہیں کر گزریں ، آخرت میں ہمارا بال تک بیکا نہ ہوگا ، کیونکہ ہم فلاں کے دامن گرفتہ ہیں، یا فلاں ہماری سفارش کر دے گا، یا فلاں ہمارے لیے کَفّارہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو چھوڑ کر تم اپنا رُوئے سخن ان لوگوں کی طرف رکھو جو خدا کے سامنے حاضری کا بھی اندیشہ رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ جھوٹے بھروسوں پر پھُولے ہوئے بھی نہ ہوں۔ اس نصیحت کا اثر صرف ایسے ہی لوگوں پر ہو سکتا ہے اور انہی کے درست ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے |
Surah 6 : Ayat 70
وَذَرِ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَاۚ وَذَكِّرْ بِهِۦٓ أَن تُبْسَلَ نَفْسُۢ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِىٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَآۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ أُبْسِلُواْ بِمَا كَسَبُواْۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اِس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مدد گار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور گر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور درد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا
Surah 26 : Ayat 100
فَمَا لَنَا مِن شَـٰفِعِينَ
اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے1
1 | یعنی جنہیں ہم دنیا میں سفارشی سمجھتے تھے اور جن کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ تھا کہ ان کا دامن جس نے تھام لیا بس اس کا بیڑا پار ہے ، ان میں سے آج کوئی بھی سعی سفارش کے لیے زبان کھولنے والا نہیں ہے |
Surah 26 : Ayat 101
وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ
اور نہ کوئی جگری دوست1
1 | یعنی کوئی ایسا بھی نہیں ہے جو ہمارا غم خوار اور ہمارے لیے کُڑھنے والا ہو، چاہے ہم کو چھڑا نہ سکے مگر کم از کم اسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی ہی ہو۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ آخرت میں دو ستیاں صرف اہل ایمان ہی کی باقی رہ جائیں گی۔ رہے گمراہ لوگ، تو وہ دنیا میں چاہے کیسے ہی جگری دوست رہے ہوں ، وہاں پہنچ کر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں گے ، ایک دوسرے کو مجرم ٹھیرائیں گے اور اپنی بربادی کا ذمہ دار قرار دے کر ہر ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔ اَلْاَخِلَّآ ءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ الَّا الْمُتَّقِیْنَ O (الزخرف۔ آیت 67 ) ’’ دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقین (کی دوستیاں قائم رہیں گی)۔ |
Surah 30 : Ayat 13
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَآئِهِمْ شُفَعَـٰٓؤُاْ وَكَانُواْ بِشُرَكَآئِهِمْ كَـٰفِرِينَ
ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا1 اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے2
2 | یعنی اُس وقت یہ مشرکین خود اس بات کااقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کاشریک ٹھیرانے میں غلطی پر تھے۔ان پریہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصّہ نہیں ہے،اس لیے جس شرک پرآج وہ دنیا میں اصرار کررہے ہیں،اسی کا وہ آخرت میں انکارکریں گے۔ |
1 | شُرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پرہوتاہے۔ایک ملائکہ،انبیاء،اولیاء اور شہداء وصالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات واختیارات کاحامل قرار دے کران کے آگے مراسِم عبودیت انجام دیےہیں۔وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر،بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو،اس لیے ہماراتم سے کوئی واسطہ نہیں،ہم سے کوئی اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض معروض کریں گے۔دوسری قسم اُن اشیاء کی ہے جوبے شعور یا بےجان ہیں،جیسے چاند،سورج،سیارے،درخت،پتھراور حیوانات وغیرہ۔مشرکین نےان کو خدابنایا اوران کی پرستش کی اوران سے دعائیں مانگیں،مگروہ بے چارے بے خبرہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیازمندیاں ان کےلیے وقف فرمارہےہیں۔ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہوگا۔تیسری قسم اُن اکابرمجرمین کی ہے جنہوں نے خودکوشش کرکے،مکرو فریب سے کام لے کر،جھوٹ کے جال پھیلا کر،یا طاقت استعمال کرکے دنیا میں خداکے بندوں سے اپنی بندگی کرائی،مثلاً شیطان،جھوٹے مذہبی پیشوا،اورظالم وجابر حکمراں وغیرہ۔یہ وہاں خود گرفتارِبلاہوں گے،اپنے ان بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھناتو درکنار،اُن کی تو اُلٹی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے نامہ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور دادرِمحشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں،ان کی گمراہی کا وبال ہم پرنہیں پڑنا چاہیے۔اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی۔ |
Surah 32 : Ayat 4
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّ وَلَا شَفِيعٍۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
وہ اللہ ہی ہے 1جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا2، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟3
3 | یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔ تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے، مخلوق ہے۔ اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے، بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے؟ |
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ۳۶۔۲۶۱۔۲۶۲۔۴۴۱۔۴۴۲ |
1 | اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں،اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہانکے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز، کوئی حاجت روا، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا، اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 23
ءَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةً إِن يُرِدْنِ ٱلرَّحْمَـٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّى شَفَـٰعَتُهُمْ شَيْــًٔا وَلَا يُنقِذُونِ
کیا میں اُسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں؟ حالانکہ اگر خدائے رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ اُن کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں1
1 | یعنی نہ وہ خدا کے ایسے چہیتے ہیں کہ میں صریح جرم کروں اور وہ محض ان کی سفارش پر مجھے معاف کر دے۔اور نہ ان کے اندر اتنا زور ہے کہ خدا مجھے سزا دینا چاہے اور وہ اپنے بل بوتے پر مجھے چھڑا لے جائیں۔ |
Surah 40 : Ayat 18
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ ٱلْأَزِفَةِ إِذِ ٱلْقُلُوبُ لَدَى ٱلْحَنَاجِرِ كَـٰظِمِينَۚ مَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ
اے نبیؐ، ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آ لگا ہے1 جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہونگے ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا 2اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے3
3 | یہ بات برسبیل تنزل، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اَڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے۔ |
2 | اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آۓ اور اسے بچانے کے لیے دوڑے |
1 | قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُاللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ(النحل:1)۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَلِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء :1) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:1)۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰ زِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ (النجم:57)۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں۔ |
Surah 43 : Ayat 86
وَلَا يَمْلِكُ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ٱلشَّفَـٰعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِٱلْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، الا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے1
1 | اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں : ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے ۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ (نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی۔ دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر (نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ) حق کی شہادت دی ہو ۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا ، یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا ا لٰہ الا اللہ بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں، تو وہ غلط کہتا ہے ۔ یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آۓ ۔ لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اور یقیناً نہیں ہے ، تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو ، اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے ۔ اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے ۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا ، ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے ۔ لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوۓ لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے ۔ ثانیاً ، اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے ۔ گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے ۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذارأیت مثل الشمس فاشہد و لّا فدع (احکام القرآن للجصّاص) ’’ اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنےدے |
Surah 74 : Ayat 48
فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـٰعَةُ ٱلشَّـٰفِعِينَ
اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی1
1 | یعنی ایسے لوگ جنہوں نے مرتے دم تک یہ روش اختیار کیے رکھی ہوہ ان کے حق میں اگر کوئی شفاعت کرنے والا شفاعت کرے بھی تو اسے معافی نہیں مل سکتی۔ شفاعت کے مسئلے کو قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا، کس حالت میں کی جا سکتی ہے اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی، کس کے لیے کی جا سکتی ہے اور کس کے لیے نہیں کی جا سکتی، اور کس کے حق میں وہ نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا میں چونکہ لوگوں کی گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں، اس لیے قرآن نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں: البقرہ، 255۔ الانعام، 94۔ الاعراف، 53۔ یونس، 3۔18۔ مریم، 78۔ طٰہٰ، 109۔ الانبیاء، 28۔ سبا، 23۔ الزمر، 43۔44۔ المؤمن، 18۔ الدخان، 86۔ النجم 62۔ النبا، 37۔38۔ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں یہ آیات آئی ہیں ہم نے ان کی اچھی طرح تشریح کردی ہے |