Ayats Found (13)
Surah 3 : Ayat 118
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٲهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے1 تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)
1 | سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :92 |
Surah 3 : Ayat 186
۞ لَتُبْلَوُنَّ فِىٓ أَمْوَٲلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ أَذًى كَثِيرًاۚ وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو1 تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
1 | یعنی اُن کے طعن و تشنیع، اُن کے الزامات ، اُن کے بیہُودہ طرزِ کلام اور اُن کی جھُوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اُتر آ ؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں |
Surah 3 : Ayat 110
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے1 تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب2 ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں
2 | یہاں اہلِ کتاب سے مراد بنی اسرائیل ہیں |
1 | یہ وہی مضمون جو سورہ ٴ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے ۔ نبی ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دُنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئی ہیں جو امامتِ عادلہ کے لیے ضروری ہیں ، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور ربّ تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو اور اُن غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ١۲۳ و نمبر ١۴۴) |
Surah 3 : Ayat 111
لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّآ أَذًىۖ وَإِن يُقَـٰتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ ٱلْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ
یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی
Surah 9 : Ayat 74
يَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ ٱلْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلَـٰمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْۚ وَمَا نَقَمُوٓاْ إِلَّآ أَنْ أَغْنَـٰهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ مِن فَضْلِهِۦۚ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا لَّهُمْۖ وَإِن يَتَوَلَّوْاْ يُعَذِّبْهُمُ ٱللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۚ وَمَا لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے1 وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے2 یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے نا کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا3 ہے! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آ جائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت درد ناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو اِن کا حمایتی اور مددگار ہو
3 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اَوس و خَزرَج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتح دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا۔ وہی اوس و خزرج کےکاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات ، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں |
2 | یہ اشارہ ہے اُن سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوۂ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے ۔ حضور کو اس کی اطلاع ہو گئی۔ آپ نے تمام اہلِ لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں، اور آپ خود صرف عمّار بن یاسرؓ اور حُذَیفَہ بن یمانؓ کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہؓ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں ۔ مگر وہ دُور ہی سے حضرت حذیفہؓ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہنچان نہ لیے جائیں فورًا بھاگ نکلے۔ دوری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آجانے کی توقع نہ تھی ، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن اُبَیّ کے سر پر تاج ِ شاہی رکھ دیا جائے |
1 | وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں۔ مثلًا ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) پیش کر تا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھررہے تھے۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ”یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے“ |
Surah 85 : Ayat 8
وَمَا نَقَمُواْ مِنْهُمْ إِلَّآ أَن يُؤْمِنُواْ بِٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ
اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
Surah 7 : Ayat 126
وَمَا تَنقِمُ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِـَٔـايَـٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاۚ رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں1"
1 | فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملہ کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قراردیدے اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اِس الزاقم کا اقبال کرالے۔ لیکن یہ چال بھی اُلٹی پڑی ۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ اُن کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا۔ اب اُس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کردے۔ اس مقام پر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ چند لمحو ں کے اندر ایمان نے ان جادوگروں کی سیرت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہی جادوگروں کی ونائت کا یہ حال تھا کہ اپنے دین آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملہ سے بچالیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا؟ یا اب جو نعمت ِ ایمان نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولواالعزمی اس حد کو پہنچ گئی کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جارہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور اُن بد ترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے |
Surah 5 : Ayat 64
وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَـٰنًا وَكُفْرًاۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٲوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًاۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں1 باندھے گئے ان کے ہاتھ2، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں3 اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے4، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
4 | یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے |
3 | یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں |
2 | یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں |
1 | عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 59
قُلْ يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَـٰسِقُونَ
اِن سے کہو، "اے اہل کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں؟"
Surah 4 : Ayat 101
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِى ٱلْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُواْ مِنَ ٱلصَّلَوٲةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْۚ إِنَّ ٱلْكَـٰفِرِينَ كَانُواْ لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو1 (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے2 کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں
2 | ظاہر یوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالتِ جنگ کے لیے ہے اور حالتِ امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب یہی شبہہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی تو حضور ؐ نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فا قبلوا صدقتہ۔”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو۔“ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ العٰلمین فصلی رکعتین۔ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں “۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے |
1 | زمانۂ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔ اور حالتِ جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔ قبلہ رُخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رُخ ہو ۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً مؤخر کی جائے جیسے جنگِ خندق کے موقع پر ہوا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشا کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کوجائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کررہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے۔ جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمّہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے، جیسے جہاد، حج، عمرہ ، طلب ِ علم وغیرہ۔ ابن عمر، ابن مسعود ؓ اور عطاء کا یہی فتویٰ ہے۔امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اُٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ (فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ) کا مفہُوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے ۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اُٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے۔ یہی رائے امام شافعی ؒ نے اختیار کی ہے، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک ِ قصر کو ترکِ اولٰی قرار دیتے ہیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک ؒ سے بھی منقول ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ ؐ نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں۔ ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو۔ اسی کی تائید میں ابن عباس ؓ اور دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان ؓ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سُنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہواہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اوراتمام دونوں درُست ہیں، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کےعلاوہ خود حضرت عائشہ ؓ ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر و الحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں، اور غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتما م بھی۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سُورۂ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصُود لوگوں کے اِس اندیشہ کو دُور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی۔ مقدارِ سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے ، ظاہر یّہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ امام مالک ؒ کے نزدیک ۴۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے۔ یہی رائے امام احمدؒ کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعیؒ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر ؓ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے۔ حَسن بصری دو دن، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵۴ میل) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے۔ یہی رائے ابن عمر، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اثنائے سفر میں دَورانِ قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ امام مالک اور اما م شافعی کے نزدیک جہاں چاردن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیتِ قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبُوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعینِ مدت قصر کیا جاتا رہے گا۔ صحابۂ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پُورے زمانۂ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں |