Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 255
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌۚ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَۖ وَلَا يَــُٔودُهُۥ حِفْظُهُمَاۚ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے 1وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے2 زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے 3کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے4؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے5 اُس کی حکومت6 آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے7
7 | یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللی نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اُٹھائے گا |
6 | اصل میں لفظِ”کُرْسِی“ استعمال ہوا ہے ، جسے بالعمُوم حکومت و اقتدار کے لیے اِستعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں بھی اکثر کُرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مُراد لیتے ہیں |
5 | اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اُوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدُود حاکمیّت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصوّر پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالا ستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دُوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دُوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام ِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یاجِن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات، سب کا عِلم ناقص اور محدُود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی ازادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کوبھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اُس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے |
4 | یہ اُن مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے،جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دُوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اَڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرّب ترین فرشتہ اُس پادشاہِ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جُراٴت نہیں رکھتا |
3 | یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اُس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیّت میں، اس کی تدبیر میں اور اُس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دُوسری ہستی کا بھی تم تصوّر کر سکتے ہو، وہ بہرحال اِس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کر فر د ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اُس کا شریک اور ہمسر |
2 | یہ اُن لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوندِ عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسُوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصُوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا |
1 | یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبُود بنا رکھے ہوں، مگرا صل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکتِ غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دُوسرا نہ اس کی صفات میں اُس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اَور کو معبُود (الہٰ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے |
Surah 19 : Ayat 87
لَّا يَمْلِكُونَ ٱلشَّفَـٰعَةَ إِلَّا مَنِ ٱتَّخَذَ عِندَ ٱلرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا
اُس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اُس کے جس نے رحمان کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو1
1 | یعنی سفارش اسی کے حق میں ہو گی جس نے پروانہ حاصل کیا ہو، اوروہی سفارش کر سکے گا جسے پروانہ ملا ہو۔ آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونوں پہلوؤں پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بات کہ سفارش صرف اسی حق میں ہو سکے گی جس نے رحمان سے پروانہ حاصل کر لیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں ایمان لا کر خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو خدا کے عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو۔ اور یہ بات کہ سفارش وہی کر سکے گا جس کو پروانہ ملا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارشیں کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لیے زبان کھول سکے گا۔ |
Surah 20 : Ayat 109
يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ ٱلشَّفَـٰعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ ٱلرَّحْمَـٰنُ وَرَضِىَ لَهُۥ قَوْلاً
اُس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے1
1 | اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’اُس روز شفاعت کار گرنہ ہو گی الا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو‘‘۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأت نہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالٰی بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بار گاہ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جاۓ۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ،’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ’’(بقرہ۔ آیت 255)۔ اور : یَوْمَ یَقُوْمُ الرَّوْحُ وَا لْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّ، لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَلَ صَوَاباً، ’’وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے‘‘(النبا۔ آیت 38)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا : وَلَا یَشْفَعُوْنَاِلَّا لِمَنِ ارْ تَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ، ’’اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں‘‘ (الانبیاء۔ آیت 28)۔ اور : کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللہُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَرْضٰی، ’’کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے کہ اللہ سے اجازت لینے کے بعد کی جاۓ اور ایسے شخص کے حق میں کی جاۓ جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے‘‘(النجم، آیت 26)۔ |
Surah 21 : Ayat 28
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ٱرْتَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِۦ مُشْفِقُونَ
جو کچھ اُن کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں1
1 | مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے ۔ ایک یہ کہ انکے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے ۔ دوسرے یہ کہ وہ انکی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع (سفارشی) بنانا چاہتے تھے ۔ : وَیَقُوْ لُوْ نَ ھٰؤُ لَآ ءِ شُفَعَآ ؤُنَا عنداللہ (یونس ۔ آیت ۔ 18 ۔ اور مَانَعْبُدُ ھُمْ لِیُقَرِّ بُوْ نَآ اِلَی اللہِ زُلْفاً ہ (الزمر ۔ آیت 3 ) ۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے ۔ اس جگہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ اللہ تعالیٰ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور ان باتوں کو بھی جو ان سے اوجھل ہیں ۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ آخر ان کو سفارش کرنے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جب کہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لیے خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین ، ہر ایک کا اختیار شفاعت لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے ۔ بطور خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے ۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز جھکایا جاۓ اور دست سوال دراز کیا جائے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 85 ۔ 86 ) |
Surah 34 : Ayat 22
قُلِ ٱدْعُواْ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ
(اے نبیؐ1، اِن مشرکین سے) کہو کہ پکار دیکھو اپنے اُن معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار بھی نہیں ہے
2 | یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے، یا اِدبار کو اقبال سے بدل سکیں؟ |
1 | پچھلے دو رکوع میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے |
Surah 53 : Ayat 26
۞ وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ لَا تُغْنِى شَفَـٰعَتُهُمْ شَيْــًٔا إِلَّا مِنۢ بَعْدِ أَن يَأْذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَىٰٓ
آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، اُن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اُس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے1
1 | یعنی تمام فرشتے مل کر بھی اگر کسی کی شفاعت کریں تو وہ اس کے حق میں نافع نہیں ہو سکتی، کجا کہ تمہارے ان بناوٹی معبودوں کی شفاعت کسی کی بگڑی بنا سکے ۔ خدائی کے اختیارات سارے کے سارے بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ فرشتے بھی اس کے حضور کسی کی سفارش کرنے کی اس وقت تک جسارت نہیں کر سکتے جب تک وہ انہیں اس کی اجازت نہ دے اور کسی کے حق میں اُن کی سفارش سننے پر راضی نہ ہو |