Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 197
ٱلْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَـٰتٌۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّۗ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُۗ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيْرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقْوَىٰۚ وَٱتَّقُونِ يَـٰٓأُوْلِى ٱلْأَلْبَـٰبِ
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل1، کوئی بد عملی2، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات3 سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے پس اے ہوش مندو! میر ی نا فرمانی سے پرہیز کرو4
4 | جاہلیّت کے زمانے میں حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دُنیا دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دُنیا کا سامان لیے بغیر جائے گا۔ اس آیت میں اُن کے اِس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زادِ راہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہو کر بُرے اعمال کر تا ہے، وہ اگر زادِ راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہو گا اور اپنے اُس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا، جس کے لیے وہ سفر کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں، تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزّت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو |
3 | حتیٰ کہ خادم کو ڈانٹنا تک جائز نہیں |
2 | تمام معصیت کے افعال اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں، لیکن احرام کی حالت میں ان کا گناہ بہت سخت ہے |
1 | احرام کی حالت میں میاں اور بیوی کے درمیان نہ صرف تعلقِ زن و شو ممنوع ہے، بلکہ اُن کے درمیان کوئی ایسی گفتگو بھی نہ ہونی چاہیے ، جو رغبتِ شہوانی پر مبنی ہو |
Surah 2 : Ayat 215
يَسْــَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَٲلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا
Surah 2 : Ayat 273
لِلْفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحْصِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِى ٱلْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ ٱلْجَاهِلُ أَغْنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَـٰهُمْ لَا يَسْــَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلْحَافًاۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا1
1 | اِس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا، جو تاریخ میں اصحابِ صُفّہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے، جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آگئے تھے۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ حضور جس مہم پر چاہتے انھیں بھیج دیتے تھے، اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ پُورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے، اِ س لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجّہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے |
Surah 3 : Ayat 92
لَن تَنَالُواْ ٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىْءٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو1، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
1 | اس سے مقصُود اُن کی اس غلط فہمی کو دُور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصوّر بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اُتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اُوپری سطح سے نیچے بالعمُوم یہُودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیُوب چھّپائے ہوئے تھے اور رائے عام اُن کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے اُنھیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام اُن چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل رُوح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بُت ہے اور جب تک اُ س بُت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اُس پر بند ہیں۔ اس رُوح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اُس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھُن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا |
Surah 2 : Ayat 270
وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُهُۥۗ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں1
1 | خرچ خواہ راہِ خدا میں کیا ہو یا راہِ شیطان میں ، اور نذر خواہ اللہ کے لیے مانی ہو یا غیر اللہ کے لیے، دونوں صُورتوں میں آدمی کی نیّت اور س کے فعل سے اللہ خوب واقف ہے۔ جنہوں نے اُس کے لیے خرچ کیا ہوگا اور اس کی خاطر نذر مانی ہوگی، وہ اس کا اجر پائیں گے اور جن ظالموں نے شیطانی راہوں میں خرچ کیا ہو گا اور اللہ کو چھوڑ کر دُوسروں کے لیے نذر مانی ہوں گی اُن کو خدا کی سزا سے بچانے کے لیے کوئی مددگار نہ ملے گا۔ نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مُراد کے بر آنے پر کسی ایسے خرچ یا کسی ایسی خدمت کو اپنے اُوپر لازم کر لے ، جو اس کے ذمّے فرض نہ ہو۔ اگر یہ مراد کسی حلال و جائز امر کی ہو، اور اللہ سے مانگی گئی ہو، اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے، وہ اللہ ہی کے لیے ہو، تو ایسی نذر اللہ کی اطاعت میں ہے اور اس کا پورا کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے۔ اگر یہ صُورت نہ ہو ، تو ایسی نذر کا ماننا معصیت اور اس کا پُورا کرنا مُوجبِ عذاب ہے |
Surah 6 : Ayat 53
وَكَذَٲلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوٓاْ أَهَـٰٓؤُلَآءِ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنۢ بَيْنِنَآۗ أَلَيْسَ ٱللَّهُ بِأَعْلَمَ بِٱلشَّـٰكِرِينَ
دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے1 تاکہ وہ اِنہیں دیکھ کر کہیں "کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟" ہاں! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو اِن سے زیادہ نہیں جانتا ہے؟
1 | یعنی غریبوں اور مفلسوں اور ایسے لوگوں کو جو سوسائیٹی میں ادنیٰ حیثیت رکھتے ہیں، سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر ہم نے دولت اور عزّت کا گھمنڈ رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے |