Ayats Found (3)
Surah 77 : Ayat 35
هَـٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ
یہ وہ دن ہے جس میں وہ نہ کچھ بولیں گے
Surah 77 : Ayat 36
وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ
اور نہ اُنہیں موقع دیا جائے گا کہ کوئی عذر پیش کریں1
1 | یہ ان کی آخری حالت ہوگی جو جہنم میں داخلہ کے وقت ان پر طاری ہوگی۔ اس سے پہلے میدانِ حشر میں تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں گے۔ بہت سی معذرتیں پیش کریں گے، ایک دوسرے پر اپنے قصوروں کا الزام ڈال کر خود بے قصور بننے کی کوشش کریں گے، اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں اور پیشواؤں کو گالیاں دیں گے، حتیٰ کہ بعض لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار کر گزریں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مگرجب تمام شہادتوں سے ان کا مجرم ہونا پوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں اوران کے اعضاء تک ان کے خلاف گواہی دے کرثبوت جرم میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے، اور جب بالکل بجا اور برحق طریقے سےعدل وانصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں سزا سنا دی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذرپیش کرنےکا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اس طرح قطعی ناقابل انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ ا پنی معذرت میں کچھ نہ کہہ سکیں گے۔ یہ ایسا ہی ہےجیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بولنے نہیں دیا، یا میں نے اس کی زبان بند کر دی، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس پر ایسی حجت تمام کی کہ اس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا |
Surah 16 : Ayat 84
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ1 کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا2 نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا3
3 | یعنی اُس وقت اُن سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ قرآن اورحدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ توبہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثارِموت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ اسکا آخری وقت آن پہنچا ہے اُس وقت کی توبہ ناقابلِ قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی رہ جاتا ہے۔ |
2 | یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکاراورناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔ |
1 | یعنی اُس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس اُمت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو،شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روزِقیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق اِن لوگوں کو پہنچا دیا تھا، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔ |