Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 68
قَالُواْ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانُۢ بَيْنَ ذَٲلِكَۖ فَٱفْعَلُواْ مَا تُؤْمَرُونَ
بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں گائے کی کچھ تفصیل بتائے موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو
Surah 6 : Ayat 142
وَمِنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ حَمُولَةً وَفَرْشًاۚ كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں1 کھاؤ اُن چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیرو ی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے2
2 | سلسلۂ کلام پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دُوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دُوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اَ ور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اَور کے آگے شُکرِ نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انھیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاءِ الہٰی کے خلاف ہیں |
1 | اصل میں لفظ فَرْش استعمال ہوا ہے ۔ جانوروں کو فرش کہنا یا تو اس رعایت سے ہےکہ وہ چھوٹے قد کے ہیں اور زمین سے لگے ہوئے چلتے ہیں۔ یا اس رعایت سے کہ وہ ذبح کے لیے زمین پر لٹائے جاتے ہیں، یا اس رعایت سے کہ ان کی کھالوں اور ان کے بالوں سے فرش بنائے جاتے ہیں |
Surah 36 : Ayat 60
۞ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ أَن لَّا تَعْبُدُواْ ٱلشَّيْطَـٰنَۖ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
آدمؑ کے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
Surah 43 : Ayat 62
وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ ٱلشَّيْطَـٰنُۖ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
ایسا نہ ہو شیطان تم کو اُس سے روک دے1 کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
1 | یعنی قیامت پر ایمان لانے سے روک دے |
Surah 12 : Ayat 5
قَالَ يَـٰبُنَىَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلَىٰٓ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُواْ لَكَ كَيْدًاۖ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ لِلْإِنسَـٰنِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
جواب میں اس کے باپ نے کہا، 1"بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے
1 | اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماوٴں سے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف ؑ سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کاروائی کرنے میں انہیں کوئی تاٴمل ہو، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرمادیا کہ ان سے ہوشیار رہنا۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب ؑ ، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف ؑ کی سوتیلی والدہ)اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں |
Surah 17 : Ayat 53
وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُواْ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ كَانَ لِلْإِنسَـٰنِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اے محمدؐ، میرے بندوں1 سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو 2دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے3
3 | یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تاکہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔ |
2 | یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف ِحق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔ |
Surah 18 : Ayat 50
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ ٱلْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِۦٓۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُۥ وَذُرِّيَّتَهُۥٓ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوُّۢۚ بِئْسَ لِلظَّـٰلِمِينَ بَدَلاً
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا1 وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا2 اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں
2 | یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اسی لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ مَا لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوؤْ نَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن، آیات ۱۳۔ ۱۵)۔ رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا‘‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳) |
1 | اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 15
وَدَخَلَ ٱلْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِۦ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِۦۖ فَٱسْتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِى مِن شِيعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِى مِنْ عَدُوِّهِۦ فَوَكَزَهُۥ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِۖ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَـٰنِۖ إِنَّهُۥ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
(ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت میں داخل ہوا جبکہ اہلِ شہر غفلت میں تھے1 وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دُوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا موسیٰؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا2 اور اس کا کام تمام کر دیا (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا "یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کن ہے3"
3 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھا کرجب مصری گرا ہوگا اوراس نے دم توڑدیا ہوگا توکیسی سخت ندامت اورگھبراہٹ کی حالت میںیہ الفاظ حضرت موسٰیؑ کی زبان سے نکلے ہوں گے۔ ان کاکوئی ارادہ قتل کا نہ تھا۔ نہ قتل کے کے گھونسا ماراجاتا ہے۔ نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہےکہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلاچنگا آدمی پران چھوڑدےگا۔ اس بنا پرحضرت موسٰی ؑ نے فرمایا کہ شیطان کاکوئی شریرانہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ایک بڑا فساد کھڑا کرنےکےلیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تاکہ ایک اسرئیلی کی حمایت میں ایک قبطی کومارڈالنے کاالزام مجھ پر عائد ہواورصرف میرےہی خلاف نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خلاف مصر میں ایک طوفان عظیم اُٹھ کھڑا ہو۔ اس معاملہ میں بائیبل کابیان قرآن سے مختلف ہے۔ وہ حضرت موسٰیؑ کوقتل عمد کامجرم ٹھیراتی ہے۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اوراسرئیلی کولڑتےدیکھ کرحضرت موسٰیؑ نے’’اِدھر اُدھر نگاہ کی اورجب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تواس مصری کو جان سےمار کر اسےریت میں چھپادیا‘‘(خروج ۱۲:۲)۔ یہی بات تلمود میںبھی بیان کی گئی ہے۔ اب یہ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرئیل اپنے اکابر کی سیرتوں کوخود کس طرح داغدار کرتے ہیں اورقرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم وداناآدمی ، جسے آگے چل کرایک اولوالعزم پیغمبر ہوناتھااورجسے انسان کوعدل وانصاف کاایک عظیم الشان قانون دیناتھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہوسکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کوکڑتے دیکھ کرآپے سےباہرہوجائے اورجان بوجھ کراسے قتل کرڈالے۔ ظاہر ہے کہ اسرئیلی کومصری کے پنجےسے چھڑانے کےلیے اسے قتل کردینا توروانہ ہوسکتا تھا |
2 | اصل میںلفظ ’’ وکز‘‘ استعمال ہُوا ہے جس کے معنی تھپڑ مارنے کےبھی ہیں اورگھونسامارنے کےبھی۔ ہم نےاس خیال کہ تھپڑ سے موت واقع ہوجاناگھونسے کی بہ نسبت بعید ترہے، اس کاترجمہ گھونسا مارناکیاہے۔ |
1 | ہوسکتا ہے کہ صبح سویرے کاوقت ہو، یاگرمی میںدوپہر کا، یاسردیوں میں رات کا۔ بہرحال مرادیہ ہے کہ جب سڑکیںسنسان تھیں اورشہر میںسناٹا چھایا ہواتھا۔ ’’شہرمیںداخل ہُوا‘‘، ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالسلطنت کے شاہی محلات عام آبادی سے باہرواقع تھے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام چونکہ شاہی محل میںرہتے تھے اس لیے’’شہرمیںنکلے‘‘شہر میں نکلے‘‘ کہنے کے بجائے’’شہرمیںداخل ہوئے‘‘ فرمایاگیاہے۔ |
Surah 35 : Ayat 6
إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَٱتَّخِذُوهُ عَدُوًّاۚ إِنَّمَا يَدْعُواْ حِزْبَهُۥ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصْحَـٰبِ ٱلسَّعِيرِ
در حقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں