Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 254
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَـٰعَةٌۗ وَٱلْكَـٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں2
2 | یہاں کفر کی روش اختیار کرنے والوں سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو خدا کے حکم کی اطاعت سے انکار کریں اور اپنے مال کو اس کی خوشنودی سے عزیز تر رکھیں یا وہ لوگ جو اُس دن پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں جس کے آنے کا خوف دلایا گیا ہے۔یا پھر وہ لوگ جو اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ آخرت میں انھیں کسی نہ کسی طرح نجات خرید لینے کا اور دوستی و سفارش سے کام نکال لے جانے کا موقع حاصل ہو ہی جائے گا۔ |
Surah 14 : Ayat 31
قُل لِّعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَـٰلٌ
اے نبیؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں) خرچ کریں1 قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی2
2 | یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچالے |
1 | مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے۔ وہ تو کافر ِ نعمت ہیں۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں |
Surah 40 : Ayat 18
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ ٱلْأَزِفَةِ إِذِ ٱلْقُلُوبُ لَدَى ٱلْحَنَاجِرِ كَـٰظِمِينَۚ مَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ
اے نبیؐ، ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آ لگا ہے1 جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہونگے ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا 2اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے3
3 | یہ بات برسبیل تنزل، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اَڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے۔ |
2 | اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آۓ اور اسے بچانے کے لیے دوڑے |
1 | قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُاللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ(النحل:1)۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَلِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء :1) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:1)۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰ زِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ (النجم:57)۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں۔ |
Surah 69 : Ayat 35
فَلَيْسَ لَهُ ٱلْيَوْمَ هَـٰهُنَا حَمِيمٌ
لہٰذا آج نہ یہاں اِس کا کوئی یار غم خوار ہے