Ayats Found (11)
Surah 7 : Ayat 18
قَالَ ٱخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًاۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ
فرمایا، " نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا یقین رکھ کہ اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا
Surah 15 : Ayat 42
إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ إِلَّا مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ
بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں1
1 | اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے |
Surah 15 : Ayat 43
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ
اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے1"
1 | اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے ۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست ، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔ اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔ تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے ، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے ، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔ (اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم ، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱) |
Surah 16 : Ayat 63
تَٱللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَآ إِلَىٰٓ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَعْمَـٰلَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ ٱلْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
خدا کی قسم، اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے برے کرتوت اُنہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی) وہی شیطان آج اِن لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں
Surah 17 : Ayat 63
قَالَ ٱذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُورًا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے
Surah 22 : Ayat 3
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَـٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَـٰنٍ مَّرِيدٍ
بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں1 اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں
1 | آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے ، اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑتے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخر کار جس چیز پر جا کر ٹھیرتا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا، اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی |
Surah 22 : Ayat 4
كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُۥ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُۥ يُضِلُّهُۥ وَيَهْدِيهِ إِلَىٰ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ
حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنّم کا راستہ دکھائے گا
Surah 26 : Ayat 95
وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ
اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اُوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے
1 | اصل میں لفظ : کُبْکِبُوْا فرمایا گیا ہے جس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ ایک کے اوپر ایک دھکیل دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ وہ قعر جہنم تک لڑھکتے چلے جائیں گے |
Surah 38 : Ayat 84
قَالَ فَٱلْحَقُّ وَٱلْحَقَّ أَقُولُ
فرمایا "تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں
Surah 38 : Ayat 85
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ
کہ میں جہنم کو تجھ سے اور اُن سب لوگوں سے بھر دوں گا جو اِن انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے1"
1 | یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا، ’’کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا‘‘؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر 9 اور 10 میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو،اور کیا آسمان و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے،اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ،آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے۔ابلیس نے بھی اللہ تعالٰی کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے،اور تم بھی اُس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے۔اس نے آدم کے آگے جھُکنے کا حکم نہ مانا اور تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو۔اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت بس اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی،بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے، یعنی دنیا میں خدا کی لعنت، اور آخرت میں جہنم کی آگ۔اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں۔ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اُس ازلی دشمن،ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالٰی کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبّر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے۔ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے۔ |