Ayats Found (9)
Surah 4 : Ayat 118
لَّعَنَهُ ٱللَّهُۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے (وہ اُس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ 1"میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا
1 | یعنی اُن کے اوقات میں ان کی محنتوں اور کوششوں میں ان کی قوتوں اور قابلیتوں میں،ان کے مال اور ان کی اولاد میں اپنا حصہ لگاوں گا اور ان کو فریب دے کر ایسا پرچاؤں گا کہ وہ ان ساری چیزوں کا ایک معتدبہ حصہ میری راہ میں صرف کریں گے |
Surah 4 : Ayat 119
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَأَمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ ءَاذَانَ ٱلْأَنْعَـٰمِ وَلَأَمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ ٱللَّهِۚ وَمَن يَتَّخِذِ ٱلشَّيْطَـٰنَ وَلِيًّا مِّن دُونِ ٱللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے1 اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے2" اس شیطان کوجس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا
2 | خدائی ساخت میں ردوبدل کرنے کا مطلب اشیا کی پیدائشی بناوٹ میں ردوبدل کرنا نہیں ہے۔اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذ یب ہی شیطان کے اغوا کا نتجہ قرار پائے گی۔اس لیے کہ
تہذ یب تو نام ہی ان تصّرفات کا ہے جو انسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے۔دراصل اس جگہ جس ردوبدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا نہیں کیا ہے،اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے،اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے،اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتجہ ہیں۔مثلاََ عمل قومِ لوط‘ضبطِ ولادت‘ رہبانیت‘بر‘ ہمچرج‘ مردوں اور عورتوں کا بانجھ بنایا‘مردوں کو خواجہ سرا بنانا‘ عورتوں کا ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمّدن کے اُن شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔یہ اوراس طرح کے دوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں‘دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالق کائنات کے ٹھیرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں |
1 | اہل عرب کے توہمات میں سے ایک کی طرف اشارہ ہے۔ان کے ہاں قاعدہ تھا کہ جب اُونٹنی پانچ یارس بچے جَن لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے تھے۔اسی طرح جس اُونٹ کے نقطہ سے دس بچے ہو جاتے اُسے بھی دیوتا کے نام پر پُن کر دیا جاتا تھا اور کان چیز نا اس بات کی علامت تھا کہ یہ پُن کیا ہوا جانور سے |
Surah 7 : Ayat 16
قَالَ فَبِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَٲطَكَ ٱلْمُسْتَقِيمَ
بولا، "اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر
Surah 7 : Ayat 17
ثُمَّ لَأَتِيَنَّهُم مِّنۢ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَـٰنِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَـٰكِرِينَ
اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا1"
1 | یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہےاِس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کےلیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسانِ اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرما دی، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اُس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نا اہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ٦١۔٦۵ میں اِس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلنا چاہتا ہے، چلے۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کُھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَا دِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہو گا۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہو گا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے ، جھوٹی امیدیں دلائے، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیمت میں عدالتِ الہٰی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہےگا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَا نٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْ تَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نےاپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیاتو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے۔ اُس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کاحکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی ۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا۔ یہ ایک کُھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا |
Surah 15 : Ayat 39
قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
وہ بولا 1"میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں اِن کے لیے دل فریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا
1 | یعنی جس طرح تُو نے اِ س حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ تیرا حکم نہ مانوں، اسی طرح اب میں ان انسانوں کے لیے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اُس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے۔ بالفاظِ دیگر ابلیس کا مطلب یہ تھا کہ مَیں زمین کی زندگی اور اُس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد و منافع کو انسان کے لیے ایسا خوشنما بنا دوں گا کہ وہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بھول جائیں گے اور خود تجھے بھی یا تو فراموش کر دیں گے، یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیرے احکام کی خلاف ورزیاں کریں گے |
Surah 15 : Ayat 42
إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ إِلَّا مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ
بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں1
1 | اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے ، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا ، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا ، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی ، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا ہوگا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے |
Surah 17 : Ayat 62
قَالَ أَرَءَيْتَكَ هَـٰذَا ٱلَّذِى كَرَّمْتَ عَلَىَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُۥٓ إِلَّا قَلِيلاً
پھر وہ بولا 1"دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے"
1 | ’’بیخ گنی کر ڈالوں“، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں۔”احتناک“کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافتِ الہٰی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے، اس لیے اس مقام سے اُس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ دبن سے اُکھاڑ پھینکا جانا۔ |
Surah 38 : Ayat 82
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
اس نے کہا "تیری عزت کی قسم، میں اِن سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا
Surah 38 : Ayat 83
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ
بجز تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے1"
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’میں تیرے چیدہ بندوں کو بہکاؤں گا نہیں،‘‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’تیرے چیدہ بندوں پر میرا بس نہ چلے گا۔ |