Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 134
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے1
1 | یعنی اگرچہ تم اُن کی اولاد سہی، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُن کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم اُن کے طریقے سے پھر گئے۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ اُنہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کما ؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے،“ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضِ کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ وہی نتیجہ ہماری کمائِ ہے۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے |
Surah 2 : Ayat 141
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا"
Surah 34 : Ayat 25
قُل لَّا تُسْــَٔلُونَ عَمَّآ أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْــَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ
ان سے کہو، 1"جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی"
1 | اوپر کی بات سامعین کو پہلے ہی سوچنے پرمجبور کر چکی تھی۔اس پرمزید ایک فقرہ یہ فرمادیا گیا تاکہ وہ اور زیادہ تفکر سے کام لیں۔اِس سےان کو یہ احساس دلایا گیا کہ ہدایت اور گمراہی کےاس معاملے کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا ہم میں سے ہرایک کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے۔فرض کرو کہ ہم گمراہ ہیں تو اپنی اس گمراہی کا خمیازہ ہم ہی بھگتیں گے،تم پراس کی کوئی پکڑ نہ ہوگی۔اس لیے یہ ہمارے اپنے مفاد کاتقاضا ہےکہ کوئی عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ لیں کہ کہیں ہم غلط راہ پرتو نہیں جارہے ہیں۔اِسی طرح تم کو بھی ہماری کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی خیرخواہی کی خاطر ایک عقیدے پرجمنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کہیں تم کسی باطل نظریے پرتواپنی زندگی کی ساری پونجی نہیں لگارہے ہو۔اس معاملے میں اگر تم نے ٹھوکر کھائی تو تمہارا اپناہی نقصان ہوگا،ہمارا کچھ نہ بگڑے گا |
Surah 55 : Ayat 39
فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْــَٔلُ عَن ذَنۢبِهِۦٓ إِنسٌ وَلَا جَآنٌّ
اُس روز کسی انسان اور کسی جن سے اُس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ1 ہوگی
1 | اس کی تشریح آگے کا یہ فقرہ کر رہا ہے کہ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس عظیم الشان مجمع میں جہاں تمام اولین و آخرین اکٹھے ہوں گے، یہ پوچھتے پھرنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ کون کون لوگ مجرم ہیں۔ نہ کسی انسان یا جن سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت پیش آۓ گی کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ مجرموں کے اترے ہوۓ چہرے اور ان کی خوف زدہ آنکھیں اور ان کی گھبرائی ہوئی صورتیں اور ان کے چھوٹتے ہوۓ پسینے خود ہی یہ راز فاش کر دینے کے لیے کافی ہوں گے کہ وہ مجرم ہیں۔ پولس کے گھیرے میں اگر ایک ایسا مجمع آ جاۓ جس میں بے گناہ اور مجرم، دونوں قسم کے لوگ ہوں، تو بے گناہوں کے چہرے کا اطمینان اور مجرموں کے چہروں کا اضطراب بیک نظر بتا دیتا ہے کہ اس مجمع میں مجرم کو ن ہے اور بے گناہ کون۔ دنیا میں یہ کلیہ بسا اوقات اس لیے غلط ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی پولیس کے لیے لاگ انصاف پسند ہونے پر لوگوں کو بھروسا نہیں ہوتا، بلکہ با رہا اس کے ہاتھوں مجرموں کی بہ نسبت شریف لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں، اس لیے یہاں یہ ممکن ہے کہ اس پولیس کے گھیرے میں آ کر شریف لوگ مجرموں سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو جائیں۔ مگر آخرت میں، جہاں ہر شریف آدمی کو اللہ تعالیٰ کے انصاف پر کامل اعتماد ہو گا، یہ گھبراہٹ صرف ایک ان ہی لوگوں پر طاری ہو گی جن کے ضمیر خود اپنے مجرم ہونے سے آگاہ ہونگے اور جنہیں میدان حشر میں پہنچتے ہی یقین ہو جاۓ گا کہ اب ان کی وہ شامت آ گئی ہے جسے ناممکن یا مشتبہ سمجھ کر وہ دنیا میں جرائم کرتے رہے تھے |