Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 134
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے1
1 | یعنی اگرچہ تم اُن کی اولاد سہی، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُن کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم اُن کے طریقے سے پھر گئے۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ اُنہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کما ؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے،“ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضِ کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ وہی نتیجہ ہماری کمائِ ہے۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے |
Surah 2 : Ayat 141
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْۖ وَلَا تُسْــَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا"
Surah 2 : Ayat 139
قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِى ٱللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْ وَنَحْنُ لَهُۥ مُخْلِصُونَ
اے نبیؐ! اِن سے کہو: 1"کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو؟حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں، تمہارے اعمال تمہارے لیے، اور ہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں2
2 | یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے ۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو ، تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے، اس کا انجام خود دیکھ لو گے۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے ۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے ، تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے |
1 | ”یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی، تو وہ ہمارے لیے ہے، نہ کہ تمہارے لیے، کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم۔ ” اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ“ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے“؟ اِس صُورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے ، بلکہ خدا واسطے کا ہے، تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے |
Surah 6 : Ayat 69
وَمَا عَلَى ٱلَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَىْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اُن کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیز گار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا اُن کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں1
1 | مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نا فرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کر لیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتےہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں ۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اُتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں |
Surah 6 : Ayat 104
قَدْ جَآءَكُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِۦۖ وَمَنْ عَمِىَ فَعَلَيْهَاۚ وَمَآ أَنَا۟ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
دیکھو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ گئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں1
1 | یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی ؐ کی طرف سے ادا ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی ؐ سے خطاب ہوتا ہے، کبھی اہلِ ایمان سے ، کبھی اہلِ کتاب سے ، کبھی کفّار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوعِ انسانی کی ہدایت ہے، اسی طرح متکلّم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلّم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ ، کہیں فرشتوں کا گروہ، کہیں نبی ؐ ، اور کہیں اہلِ ایمان ، حالانکہ ان سب صُورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے۔ ار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور”میں تم پر پاسبا ن نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنبے پیش کر دوں۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انھیں دکھا کر ہی چھوڑوں |
Surah 6 : Ayat 105
وَكَذَٲلِكَ نُصَرِّفُ ٱلْأَيَـٰتِ وَلِيَقُولُواْ دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُۥ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اِس طرح ہم اپنی آیات کو بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں تم کسی سے پڑھ آئے ہو، اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان پر ہم حقیقت کو روشن کر دیں1
1 | یہ وہی بات ہے جو سُورۂ بقرہ رکوع ۳ میں فرما دی گئی ہے کہ مچھّر اور مکڑی وغیرہ چیزوں کی تمثیلیں سن کر حق کے طالب تو اس صداقت کو پالیتے ہین جو ان تمثیلوں کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے، مگر جن پر انکار کا تعصّب مسلّط ہے وہ طنز سے کہتے ہیں کہ بھلا اللہ کے کلام میں ان حقیر چیزوں کے ذکر کا کیا کام ہو سکتا ہے۔ اُسی مضمون کا یہاں ایک دُوسرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ۔ کہنے کا مدّعا یہ ہے کہ یہ کلام لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے انسان ممیّز ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح کے انسان وہ ہیں جو اس کلام کو سُن کر یا پڑھ کر اس کے مقصد و مدّعا پر غور کرتے ہیں اور جو حکمت و نصیحت کی باتیں اس میں فرمائی گئی ہیں ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دُوسری طرح کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ اسے سُننے اور پڑھنے کے بعد ان کا ذہن مغزِ کلام کی طرف متوجّہ ہونے کے بجائے اس ٹٹول میں لگ جاتا ہے کہ آخر یہ اُمّی انسان یہ مضامین لایا کہاں سے ہے، اور چونکہ مخالفانہ تعصّب پہلے سے ان کے دل پر قبضہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے ایک خدا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کے امکان کو چھوڑ کر باقی تمام ممکن التّصور صُورتیں وہ اپنے ذہن سے تجویز کر تے ہیں اور انھیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس کتاب کے ماخذ کی تحقیق کر لی ہے |
Surah 6 : Ayat 132
وَلِكُلٍّ دَرَجَـٰتٌ مِّمَّا عَمِلُواْۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہر شخص کا درجہ اُس کے عمل کے لحاظ سے ہے اور تمہارا رب لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے
Surah 6 : Ayat 164
قُلْ أَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْغِى رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَىْءٍۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالاں کہ وہی ہر چیز کا رب ہے1؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا2، پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، اُس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا
2 | یعنی ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے ، اور ایک عمل کی ذمہ داری دُوسرے پر نہیں ہے |
1 | یعنی کائنات کی ساری چیزوں کا ربّ تو اللہ ہے، میرا ربّ کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے ؟ کس طرح یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو ، اور کائنات کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اُسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعُوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور ربّ تلاش کروں؟ کیا پوری کائنات کے خلاف میں اکیلا ایک دُوسرے رُخ پر چل پڑوں |
Surah 27 : Ayat 92
وَأَنْ أَتْلُوَاْ ٱلْقُرْءَانَۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ
اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں" اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اُس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں
Surah 42 : Ayat 15
فَلِذَٲلِكَ فَٱدْعُۖ وَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْۖ وَقُلْ ءَامَنتُ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِن كِتَـٰبٍۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْۖ لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو1، اور اِن سے کہہ دو کہ: 2"اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں3 اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے4 ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں5 اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے"
5 | یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں |
4 | یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جاۓ گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139، سورہ یونس، آیت 41 ، سورہ ہود، آیت 35، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 117، جلد دوم یونس حاشیہ ۴۹ ہود حاشیہ ۱۳۹ القصص حاشیہ ۷۷ |
3 | اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں : ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ،تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے |
2 | بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے |
1 | یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے خدا کے اصلی اور خالص دین کو جیسا کہ اس نے بھیجا ہے سیدھی طرح مان لے ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جاۓ۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں |