Ayats Found (6)
Surah 7 : Ayat 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَۖ قَالَ أَنَا۟ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍ
پوچھا، "تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟" بولا، "میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے"
Surah 7 : Ayat 13
قَالَ فَٱهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَٱخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ ٱلصَّـٰغِرِينَ
فرمایا، 1"اچھا تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے نکل جا کہ در حقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں"
1 | اصل میں لفظ صاغیرین استعمال ہوا ہے۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل، یعنی وہ جو ذلت اور صفا را در چھوٹی حیثیت کوخود اختیار کرے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کےحکم سے اس بنا پر سر تابی کرنا کہ اپنی عزّت و بر تری کا جو تصوّر تو نے خو د قائم کر لیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے ، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔ بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بے بنیا د اِدعا ، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کےمنصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا ور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنا ئے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہو گا |
Surah 15 : Ayat 32
قَالَ يَـٰٓإِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
رب نے پوچھا "اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟
Surah 15 : Ayat 33
قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُۥ مِن صَلْصَـٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اس نے کہا "میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے"
Surah 38 : Ayat 75
قَالَ يَـٰٓإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ ٱلْعَالِينَ
رب نے فرمایا 1"اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟"
1 | یہ الفاظ تخلیق انسانی کے شرف پر دلالت کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔بادشاہ کا اپنے خدّام سے کوئی کام کرانا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک معمولی کام تھا جو خدّام سے کرا لیا گیا۔ بخلاف اس کے بادشاہ کا کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک افضل و اشرف کام تھا۔ پس اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جسے میں نے خود بلاواسطہ بنایا ہے اس کے آگے جھکنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ ’’دونوں ہاتھوں‘‘ کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالٰی کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے۔دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا۔ |
Surah 38 : Ayat 76
قَالَ أَنَا۟ خَيْرٌ مِّنْهُۖ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍ
اُس نے جواب دیا "میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے"