Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 167
وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُواْ مِنَّاۗ كَذَٲلِكَ يُرِيهِمُ ٱللَّهُ أَعْمَـٰلَهُمْ حَسَرَٲتٍ عَلَيْهِمْۖ وَمَا هُم بِخَـٰرِجِينَ مِنَ ٱلنَّارِ
اور وہ لوگ جو دنیا میں اُن کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم اِن سے بیزار ہو کر دکھا دیتے یوں1 اللہ اِن لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اِس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے
1 | یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشوا ؤ ں اور لیڈروں اور اُن کے نادان پیرو ؤ ں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مُبتلا ہو کر پچھلی اُمتّیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں |
Surah 14 : Ayat 42
وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَـٰفِلاً عَمَّا يَعْمَلُ ٱلظَّـٰلِمُونَۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ ٱلْأَبْصَـٰرُ
اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو اِنہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں
Surah 14 : Ayat 46
وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ وَعِندَ ٱللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ ٱلْجِبَالُ
انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں1
1 | یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الہٰی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔ |
Surah 23 : Ayat 99
حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ ٱلْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ٱرْجِعُونِ
(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ 1"اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں
1 | اصل میں رَبِّ ارْ جِعُوْنِ کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو ، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اوور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرار دعا کا تصور دلانے کے لیے ہے ، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے ، مجھے واپس بھیج دے ) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب ان فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے۔ یعنی بات یوں ہے : ’’ہائے میرے رب ، مجھ کو واپس کردو |
Surah 23 : Ayat 100
لَعَلِّىٓ أَعْمَلُ صَـٰلِحًا فِيمَا تَرَكْتُۚ كَلَّآۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَاۖ وَمِن وَرَآئِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا1" ہرگز نہیں2، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے 3اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک4
4 | برزخ‘‘ فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘ کا معرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھیرے رہیں گے |
3 | یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا |
2 | یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سر نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جاۓ تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سے کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لاۓ گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت ، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہو چکا ہے اسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لاحاصل ہے ، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ یو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 228۔ الانعام، حواشی 6۔ 139۔ 140۔ جلد دوم، یونس ، حاشیہ 26 ) |
1 | یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے ، اب ہماری توبہ ہے ، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے ، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات 27۔28۔ الاعراف ، 53۔ ابراہیم، 44 ، 45۔ مومنون ، 105 تا 115۔ الشعراء ، 102۔ السجدہ ، 12 تا 14۔ فاطر، 37۔ الزمر، 58۔ 59۔المومن، 10 تا 12۔ الشوریٰ ، 44۔ مع حواشی ) |
Surah 26 : Ayat 100
فَمَا لَنَا مِن شَـٰفِعِينَ
اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے1
1 | یعنی جنہیں ہم دنیا میں سفارشی سمجھتے تھے اور جن کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ تھا کہ ان کا دامن جس نے تھام لیا بس اس کا بیڑا پار ہے ، ان میں سے آج کوئی بھی سعی سفارش کے لیے زبان کھولنے والا نہیں ہے |
Surah 26 : Ayat 102
فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں1"
1 | اس تمنا کا جواب بھی قرآن میں دے دیا گیا ہے کہ وَلَوْرُدُّ وْ ا لَعَا دُوْ ا لِمَا نُھُوْ ا عَنْہٗ۔ (الانعام۔ آیت 28 ) ’’ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ‘‘۔ رہا یہ سوال کہ انہیں واپسی کا موقع کیوں نہ دیا جائے گا، اس کے وجوہ پر مفصل بحث ہم سرہ مؤمنون حواشی 90 تا 92 میں کر چکے ہیں |
Surah 32 : Ayat 12
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) "اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے"
Surah 39 : Ayat 58
أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى ٱلْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِى كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ ٱلْمُحْسِنِينَ
یا عذاب دیکھ کر کہے "کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں"
Surah 39 : Ayat 60
وَيَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ تَرَى ٱلَّذِينَ كَذَبُواْ عَلَى ٱللَّهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌۚ أَلَيْسَ فِى جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ
آج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے کیا جہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے؟