Ayats Found (2)
Surah 30 : Ayat 14
وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ
جس روز وہ ساعت برپا ہو گی، اس دن (سب انسان) الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے1
1 | یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم،نسل،وطن،زبان،قبیلہ وبرادری،اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پربنی ہوئی ہیں،اُس روز ٹوٹ جائیں گی،اورخالص عقیدے اوراخلاق وکردار کی بنیاد پرنئےسرے سے ایک دوسری گروہ بندی ہو گی۔ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور اب سب کا ایک گروہ ہوگا۔دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے،اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کرالگ نکال لیے جائیں گےاور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیزکواِس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہےاور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننےسے انکارکرتے ہیں،آخرت میں اسی بنیاد پرتفریق بھی ہوگی اوراجتماع بھی۔اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اوراخلاق ہے۔ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پرنظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں،خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں،اور کفروفسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں،خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہوسکتی۔یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کرایک ساتھ چل سکتے ہیں اورنہ آخرت میں ان کاانجام ایک ہوسکتا ہے۔دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔جاہلیت کے پرستاراس کے برعکس ہرزمانے میں اصرارکرتے رہے ہیں اورآج بھی اسی بات پرمصرہیں کہ جتھ بندی نسل اور وطن اورزبان کی بنیادوں پرہونی چاہیے،ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظِ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کردوسری ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحدہونا چاہیے،اور اس قومیت کا ایک ایسا نظامِ زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اورشرک اوردہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کرچل سکیں۔یہی تخیل ابو جہل اورابو لہب اورسردارانِ قریش کا تھا،جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرالزام رکھتے تھے کہ اِس شخص نے آکرہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیاہے۔اسی پرقرآن مجید یہاں متنبہ کررہا ہےکہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پرکررکھی ہیں آخرکارٹوٹ جانے والی ہیں،اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اُسی عقیدے اور نظریہ حیات اوراخلاق و کردار کی بنیاد پرہونے والی ہے جس پراسلام دنیا کی زندگی میں کرنا چاہتاہے۔جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہوسکتی ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 59
وَٱمْتَـٰزُواْ ٱلْيَوْمَ أَيُّهَا ٱلْمُجْرِمُونَ
اور اے مجرمو، آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ1
1 | اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے۔اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ۔اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا۔تمہاری سب پارٹیاں توڑ دی گئیں۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے۔تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ |