Ayats Found (5)
Surah 2 : Ayat 36
فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيْطَـٰنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلْنَا ٱهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ
آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ، 1"اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے"
1 | یعنی انسان کا دشمن شیطان، اور شیطان کا دشمن انسان ۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دُشمنی ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے ، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتًہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دُشمن دُوسرے دُشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا |
Surah 7 : Ayat 24
قَالَ ٱهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ
فرمایا، 1"اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے"
1 | یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا علیہ السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اُس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔(تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ۴۸و۵۳) |
Surah 7 : Ayat 25
قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ
اور فرمایا، "وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا"
Surah 2 : Ayat 38
قُلْنَا ٱهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعًاۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
ہم نے کہا کہ، 1"تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا
1 | قبول کر لی۔ اِس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گنا ہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوعِ انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم علیہ السّلام کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوّت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائِں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دُہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ قبولِ توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اُتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارُالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اُتارے گئے، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت اُن کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم اُں کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اُتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے اُن کو اُس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اُوپر حاشیہ نمبر ۴۸ میں کیا جا چکا ہے |
Surah 20 : Ayat 123
قَالَ ٱهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعَۢاۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
اور فرمایا "تم دونوں (فریق، یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا