Ayats Found (5)
Surah 7 : Ayat 8
وَٱلْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ ٱلْحَقُّۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَٲزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
اور وزن اس روز عین حق1 ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے
1 | اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس روز خدا کی میزان ِعدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیزوہاں وزنی نہ ہوگی اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا ۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہو گا وزن کے لحاظ سے ہوگا، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل وعریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندا ر کارنامے اس کی پشت پر ہوں ، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائےگی۔ باطل پرست جب اُس میزان میں تولے جائیں گےتو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرِکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف آیات ١۰۳ تا ١۰۵ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے او اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئےکام کیا کہ انجامِ کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے، ان کے کارنامئہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے |
Surah 7 : Ayat 9
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَٲزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا يَظْلِمُونَ
اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے1 کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے
1 | اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلووں میں تقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہو گا اورآخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہو گا یہ آدمی کے مثبت پہلووں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔ پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کےمنفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اُس کے تمام مثبت پہلووں کو دبالے تو اُس کاحال بالکل اُس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں |
Surah 21 : Ayat 47
وَنَضَعُ ٱلْمَوَٲزِينَ ٱلْقِسْطَ لِيَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْــًٔاۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَاۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَـٰسِبِينَ
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا جس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف ، حاشیہ 8۔9۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہو گی جو مادی چیزوں کو تولنے کے بجاۓ انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی ۔ اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے ۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ’’ ترازو‘‘ کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی، یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصور دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں ، اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامہ زندگی کو جانچ کر بے کم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا |
Surah 23 : Ayat 102
فَمَن ثَقُلَتْ مَوَٲزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے1 وہی فلاح پائیں گے
1 | یعنی جن کو قابل قدر اعمال و زنی ہوں گے۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہو گا |
Surah 23 : Ayat 103
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَٲزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُمْ فِى جَهَنَّمَ خَـٰلِدُونَ
اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا 1وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے
1 | آغاز سورہ میں ، اور پھر چوتھے رکوع میں فلاح اور خسران کا جو معیار پیش کیا جا چکا ہے اسے ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے |