Ayats Found (6)
Surah 24 : Ayat 24
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے1
1 | اصل میں لفظ ’’غافلات ‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں ، جن کے دل پاک ہیں ، جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے ، جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر ابھی الزام لگا بیٹھے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’ موبقات‘‘(تباہ کن) ہیں۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ،’’ ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے |
Surah 24 : Ayat 25
يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ ٱللَّهُ دِينَهُمُ ٱلْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْحَقُّ ٱلْمُبِينُ
اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا
Surah 36 : Ayat 65
ٱلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰٓ أَفْوَٲهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں1
1 | یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے،گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے،اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے۔تب اللہ تعالٰی حکم دے گا کہ اچھا، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں۔اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں۔ یَوْ مَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتھُُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ (النور۔ آیت 24)۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآؤُ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعھُُمْ وَ اَبْصَارھُُمْ وَجُلُوْدھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ( حٓم السجدہ۔آیت 20)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے،اور دوسری طرف سورۃ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی،ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے،یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے۔اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا، کیسے کیسے کفر بکے تھے، کیا کیا جھوٹ بولے تھے، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں۔ |
Surah 41 : Ayat 19
وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَآءُ ٱللَّهِ إِلَى ٱلنَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے1 اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا2
2 | یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے، بلکہ تمام اگلی پچھلی نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جاۓ گا۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہاۓ دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا نا گزیر ہے۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جاۓ گی اور ٹھیرائی جاتی رہے گی۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعرف حاشیہ ۳۰) |
1 | اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لاۓ جائیں گے۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لاۓ جائیں گے۔ کیونکہ ان انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے |
Surah 41 : Ayat 22
وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ أَبْصَـٰرُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ ٱللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ
تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے1
1 | اس سے معلوم ہُوا کہ صرف انسان کے اپنے اعضائے جسم ہی قیامت کے روز گواہی نہیں دیں گے بلکہ ہر وہ چیز بول اٹھے گی جس کے سامنے انسان نے کسی فصل کا ارتکاب کیا تھا۔ یہی بات سورہ زلزال میں فرمائی گئی ہے کہ و اَخُرَجَتِ الاَرضُ۔۔اَثقَاَلَھَا، وَقاَلَ الاِ نسَانُ ماَلَھَا، یَومَذِِِ تُحدِثُ اَخبَارَھَا، بِاَنَ رَبَکَ اَوھی لَھَا، زمین وہ سارے بوجھ نکال پھینکے گی جو اس کے اندر بھرے پڑے میں اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہوگیا اُس روز زمین اپنی ساری سرگزشت سنا دے گا ش(یعنی جوجو کچھ انسان اس کی پیٹھ پر کیا ہے اس داستان کر دے گی) کیونکہ تیرا رب اسے بیان کرنے کا حکم دے چکا ہو گا۔ |
Surah 17 : Ayat 36
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌۚ إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُوْلَـٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــُٔولاً
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
1 | اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہم و گمان کے بجائے”علم“کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظام ِ ملکی میں، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنےسے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائےتفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجر وشبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظنو تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔ |