Ayats Found (1)
Surah 20 : Ayat 115
وَلَقَدْ عَهِدْنَآ إِلَىٰٓ ءَادَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِىَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُۥ عَزْمًا
ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا1، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا2
2 | یعنی اس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا بلکہ غفلت اور بھول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پروا کرتا ہوں، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اس کے بجاۓ اس کی نا فرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی، بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوۓ لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا۔ بعض لوگوں نے ’’اس میں عزم نہ پایا‘‘ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ہم نے اس میں نا فرمانی کا عزم نہ پایا‘‘، یعنی اس نے جو کچھ کیا بھولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو : لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً عَلَ الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض : لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْماً۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعت حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جاۓ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالٰی آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصہ بیان نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالٰی کی پیشگی تنبیہات کے با وجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آۓ گا کہ ’’ہم نے اس میں اطاعت امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا‘‘۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ آدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نامناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی راۓ علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں : لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ’’مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع و محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد 16۔ صفحہ 243) |
1 | آدم علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ بقرہ، سورہ اعراف (دو مقامات پر) ، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جب کہ اسے دہرایا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سلسلہ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں۔ قصے کے جو اجزاء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوۓ ہیں، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے، یا طرز بیان ذرا مختلف ہو گا۔ پورے قصے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے۔ |