Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 37
فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی1، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے2
2 | قرآن اِس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بُھگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گار انہ زندگی میں مبتلا ہو گیا، اُس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اِصلاح کرنا چاہے ، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں ، جو کچھ تُو کر چکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بَھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بَھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بَھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہمرشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دُھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بَھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بَھلائی کی تھی۔ اور جس بَھلائی کو رَد کر دیتا ہے، اُسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بَھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے ربّ کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اُس قصُور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب ِ جُرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اُس قصُور پر دیتا ہے، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم ، کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی رَوش اختیار کر نے کے لیے تیار ہو |
1 | یعنی آدم کو جب اپنے قصُور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے ربّ سے اپنی خطا معاف کرائیں، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دُعا کر سکتے۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے۔ توبہ کے اصل معنی رُجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا، طریقِ بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجّہ ہو گیا، پھر سے نظرِ عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی |
Surah 20 : Ayat 122
ثُمَّ ٱجْتَبَـٰهُ رَبُّهُۥ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی2
2 | یعنی صرف معاف ہی نہ کیا، بلکہ آئندہ کے لیے راہ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا |
1 | یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا، اطاعت کی کوشش میں نا کام ہو کر جہاں وہ گر گۓ تھے وہیں انہیں پڑا نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چن لیا۔ ایک سلوک وہ ہے جو بلارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر اپنے رب کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاۓ۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض ’’بھول‘‘ اور فقدان عزم‘‘ کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جاۓ۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا، کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اٹھے تھے کہ : رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْ حَمْنَا لَنَکُوْ نَنُ مِنَالْخٰسِرِیْنَ، ’’اے ہمارے پروردگار، ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور اگر تو ہم سے در گزر نہ فرماۓ اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم بر باد ہو جائیں گے۔‘‘ (اعراف۔آیت۔ 23) |