Ayats Found (3)
Surah 13 : Ayat 8
ٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ ٱلْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُۖ وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُۥ بِمِقْدَارٍ
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے1 ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقر رہے
1 | اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اُس کی قوتوں اور قابلیتوں، اور اُس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے ، اللہ کے براہِ راست نگرانی میں ہوتی ہے |
Surah 35 : Ayat 11
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٲجًاۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۚۦ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے1 تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے2، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے3 اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے4
4 | یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اور فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ |
3 | یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالٰی نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالٰی کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔ |
2 | عنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی |
1 | یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے |
Surah 41 : Ayat 47
۞ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَٲتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۦۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَآءِى قَالُوٓاْ ءَاذَنَّـٰكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
اُس ساعت کا1 علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے2، وہی اُن سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے3 پھر جس روز وہ اِن لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے، 4"ہم عرض کر چکے ہیں، آج ہم میں سے کوئی اِس کی گواہی دینے والا نہیں ہے"
4 | یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے۔’’ ہم عرض کر چکے ہیں ‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جاۓ گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے |
3 | اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام مور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آۓ گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آۓ گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آۓ گی؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی |
2 | یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آۓ گی۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے |
1 | اس ساعت سے مراد قیامت ہے،یعنی وہ گھڑی جب ندی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جاۓ گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے |